Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

کچھ دوکچھ لوکا فارمولہ !

تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ میںجس دن سے افسوسناک واقعہ ہوا ہے، اس دن سے لے کر آج تک بس

اس وقت ملک کو گہرے انتشار سے اُٹھتی بے یقینی کی لہروں نے پوری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ،ہر طرف ایک

کچھ دوکچھ لوکا فارمولہ !

پاکستان کی تاریخ میں سیاست دانوں اور صحافیوں پراتنا کڑا وقت کبھی نہیں آیا،جتنا کہ آجکل آیا ہوا ہے،ایک طرف سیاسی مخالف قیادت اور کارکنوں کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو دوسری طرف صحافیوں کی زبان بندی کے لیے ہر جائز ونا جائز ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں،اس کے بعد بھی بات بنتی نظر نہیں آتی توہر دوسرے دن کسی نہ کسی کی ویڈیو لیک کردی جاتی ہے،

زبردستی اُٹھا کر تشدت کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، شہاز گل‘اعظم سواتی اور ارشد شریف کے ساتھ ہونے والے معاملات سب کے سامنے ہیں،کیا یہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا ،آخر کب تک ملک وعوام بلیک میلرزکے ہاتھوں یرغمال بنتے رہیں گے ۔اس وقت ملکی سیاست دو اہم ایشوز کے گرد ہی گھومے جارہی ہے، ایک ایشو ہے کہ نیا آرمی چیف کون بنے ہو گا اور دوسرا ایشو ہے کہ آئندہ کونسی سیاسی جماعت ایک پیج پر ہو گی ؟ اس سیاست میں کوئی دیکھ رہا ہے نہ سوچ رہاہے کہ عوام کا کیا بنے گا ،

جو ہر لمحہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ،بے روز گاری کا عذاب مسلسل جھیل رہے ہیں اور جو اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کے بار ے میں انتہائی مایوسی کا شکار ہیں، اس سیاست میںسب کو اپنی پڑی ہوئی ہے ،ایک اقتدار میں آنے کیلئے بے چین ہے تو دوسرا جانے کیلئے تیار نہیں ہے ،یہ سارے عوام کی بات ضرور کرتے ہیں ،مگر عوامی فیصلے کرنے اور ماننے کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں ۔
ملک دن بدن ایک سیاسی بھنور میں پھنستا چلا جارہا ہے، ایک ایسی صورت حال بنتی جارہی ہے کہ جس سے ملک پہلے کبھی دوچار نہیں ہواہے،اس وقت سیاسی قوتیں مکمل طور پر مقتدر حلقوں پر انحصار کر رہی ہیں،

جبکہ مقتدر حلقے سیاسی سمت متعین کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آرہے ہیں، ایک طرف اپنی ماضی کی پالیسیوں کے غیر متوقع نتائج کے باعث کسی حد تک داخلی تضادات کا شکار ہیںتو دوسری جانب ان کے پاس کوئی ایسا پروگرام بھی نہیں ہے کہ جس پر عمل پیراں ہو کر ملک و عوام کے مسائل کا تدارک کیا جاسکے

،اس لیے سیاسی قیادت عوام کے مسائل پر بات کر رہے ہیں نہ مقتدر حلقے کھل کر کسی سیاسی جماعت کی حمایت کررہے ہیں بلکہ بار بار کہاجارہا ہے کہ انہیں سیاست میں زبر دستی نہ گھسیٹا جائے ،سیاستدان اپنے سیاسی معاملات سیاسی انداز میں خود حل کر نے کی کوشش کر یں ،لیکن سیاسی معاملات سیاسی انداز میں حل ہوتے ہوئے بھی دکھائی نہیں دیے رہے ہیں ۔سیاسی قیادت ایک طرف غیر سیاسی قوتوں کی سیاست میں مداخلت کا وایلا کرتے ہیں

تو دوسری جانب سیاست میں محاذ آرائی کے ذریعے مقتدر حلقوں کومداخلت کی دعوت بھی دیتے رہتے ہیں،مقتدر حلقے چاہتے ہوئے بھی ملک میںسیاسی جوڑ توڑ سے لا تعلق نہیں رہ سکتے ،کیوں کہ انہوں نے ملک کو سیاسی انتشار سے بھی بچانا ہے،مقتدرحلقے قومی مفاد میں سیاسی بحران کے خاتمہ میں اپنا کردار ضرور ادا کریں

،مگر کسی ایک کی حمایت سے گریز کرنا چاہئے ، سیاسی قیادت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی شان و شوکت میں اضافہ کے لئے مقتدرحلقوں میں اپنے ’تعلقات کو حقیقی طاقت سمجھنے کی بجائے عوام کے حق انتخاب کو احترام دینے کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنی سمت کا درست تعین کریں ،اس میں ہی ملک وعوام کے ساتھ جمہوریت کی مضبوطی ہے۔ملک میں جمہوریت کی مضبوطی میں ہی سیاسی قیادت کی مضبو طی ہے ،تاہم ملک میں کوئی ایک بھی ایسی سیاسی قوت یا جماعت نہیں ہے

، جو کہ جکڑ بندیوں سے آزاد ہوکراپنی سمت کا خود تعین کر سکے،پی ٹی آئی بظاہر مقبول ضرور ہوئی ہے ،مگر اس کی سیاسی سمت ایسی نہیں ہے کہ جیسے تیسری دنیا کی مقبول سیاسی جماعتوں کی ہوتی ہے، پی ٹی آئی کی سیاست اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں رہی ہے، وہ اس وقت صرف اپنی کھلی حمایت کے لئے اینٹی بیانیہ کے ذریعے دبائو ڈال رہی ہے،اتحادی اور پی ٹی آئی قیادت کی نظریں بدستور مقتدر حلقوں پر ہی لگی ہوئی ہیں ،

اس انحصارکرنے کی سیاست کے ذریعے اتحادی عوام کو کوئی رلیف دیے پائے نہ پی ٹی آئی عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی لاسکی ،ناہی آئندہ لاسکے گی ،کیو نکہ مقتدر حلقوں کی حمایت سے ملکی سیاست مضبوط ہونے کے بجائے مزید کمزورہی ہوگی ،اس وقت عمران خان جتنے عوام میں مقبول سیاسی لیڈر ہیں،

اگر وہ چاہیں تو اس صورت حال سے ملک وعوام کو باہر نکال سکتے ہیں،لیکن اس بڑی کایا کو پلٹنے کیلئے انہیں دیگر سیاسی قوتوں سے ٹکرا ئو کی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو گی، اہل سیاست کو کچھ دو اور کچھ لو کے فار مولے کی جانب بڑھنا ہو گا،سیاست میں کچھ لو اور کچھ دو کا فارمولہ ہی کار آمد ثابت ہوتا ہے

،پی ٹی آئی قیادت نے اپنے بیانیہ سے دستبردار ہو کر ایک قدم پیچھے ہٹے ہیںتو اتحادی حکومت کو بھی ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے شفاف انتخابات کی جانب بڑھنا چاہئے، اس وقت ملک کو واقعی شفاف انتخاب درکار ہیں ، اس کے بغیر ملک میںسیا سی محاز آرائی اور بے چینی کا کسی صورت خاتمہ ہوتادیکھائی نہیں دیے رہاہے۔

Exit mobile version