51

منزل کے حصول کا پہلاقدم !

منزل کے حصول کا پہلاقدم ! 

ملک میںسیاسی استحکام کے بغیر معیشت بہتر ہوسکتی ہے نہ ہی ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتے مسائل کا حل ممکن ہے کہ جن کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوتی جارہی ہے،ہماری سیاسی قیادت آئے روز سیاسی استحکام کی ضرورت پر زور ضرور دیتے ہیں ،لیکن اس امر کو مدنظر نہیں رکھتے ہیں

کہ خود ان کا سیاسی استحکام کے لئے کیا کردار ہے،ایک طرف تحریک انصاف قیادت تسلسل کے ساتھ 80فیصد ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرے کی نشاندہی کررہے ہیںتو دوسری جانب وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا دعویٰ ہے کہ ملک کے ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں ،ایک سال کے لیے تمام بین الاقوامی ادائیگیوں کا انتظام کردیا گیاہے ،عوام فواہوں پر کان نہ دھرے ، عوام ان افواہوں پر کان دھرے نہ دھرے ملکی حالات بہتر ہو تے دیکھائی نہیں دیے رہے ہیں۔یہ پاکستانی عوام کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ وزیر خزانہ افواہ کسے کہہ رہے ہیں،

عوام توستر برس سے ایسی ہی افواہیں سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو گیا ہے اور بہت جلد مضبوط معاشی قوت بن کر اُبھرے گا،ملک کو قرضوں کی ضرورت رہے گی نہ دوسروں کے در پر کاسہ گری کرنا پڑے گی ،بلکہ دنیا بھر سے لوگ یہاں پڑھنے اور روزگار کے لیے آئیں گے، قوم نے ہمیشہ ان دعوئوں پر یقین کیا ہے، لیکن ان سارے دعوئوں میں سے کوئی ایک دعویٰ بھی پور نہیں ہو سکا ہے

،سارے دعوئے اور وعدے دھرے کے دھرے ہی رہے ہیں ، اگر لغوی اور علمی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ سارے دعوئے افواہیںہی ہیں اور سیاسی قیادت اپنے مفاد میں ایسی افواہیں خود ہی پھلا کر عوام کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں ۔ہر دور اقتدار میں حکومت اور اپوزیشن قیادت اپنے بیان بازی کے ذریعے ایسا تماشا لگاتے ہیں

اور بعدازاں اعتراض کرتے ہیں، اس بار بھی عوام کے سامنے خود ہی تماشا لگا کر خود ہی اعتراض کیا جارہا ہے ،حکومت ملک میں ترقی کے اعلانات کا تماشا کررہی ہے،جبکہ پی ٹی آئی قیادت ملک کے سری لنکا بننے، ڈیفالٹ ہونے بنانا ری پبلک بننے کا تماشا دکھارہے ہیں، یہ ملک پی ٹی آئی دور میں تیزی سے ترقی کررہا تھا

اور ان کی حکومت گرتے ہی تیزی سے تباہ ہونے لگا ہے ،لیکن ان کو نکالنے والوں کی نظروں میں پاکستان ترقی کی راہ پر چل رہا ہے، اگر اگلے چند ہفتوں میں اتحادی حکومت ختم کردی جائے تو اتحادیوں کو بھی پاکستان ڈوبتاا اور ڈیفالٹ کرتا نظر آنے لگے گا، دراصل سیاسی قیادت کوایوان اقتدار میں سب کچھ اچھا اور ایوان اقتدار کے باہر سب کچھ ہی برا نظر آتا ہے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا

کہ ہر دور اقتدار میں ملک و عوام کیلئے حالات کبھی ساز گار نہیں رہے ہیں ،اس کی ساری ذمہ داری سیاسی قیادت پر ہی عائد ہوتی ہے ،مگر سیاسی قیادت اپنی کوتاہی اور نااہلی پر شرمندہ ہونے کے بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے ہیں، یہ حکمرانوں کی بدقسمتی ہے کہ بدانتظامی یا پھر ان کے خلاف کوئی سازش ہے کہ جس روز وہ ملک کی ترقی کا کوئی دعویٰ کرتے ہیں اس روز ہی ان کے اپنے کسی ادارے کی رپورٹ یا بیان آجاتاہے

، وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملک کے ڈیفالٹ نہ ہونے کا دعویٰ کیا تو اسٹیٹ بینک کی جانب سے خبر آئی کہ چینی قرضوں پر پاکستانی حکومت کو مزید 50 ارب روپے سود ادا کرنا پڑے گا،اس سے واضح ہو گیا کہ مجموعی طور پر سود میں 39 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔پاکستانی حکمرانوں کے نزدیک کامیابی کا معیار قرضوں کا حصول اور قرضوں پر سود کی ادائیگی ہی رہا ہے ،اس لیے اسحاق ڈار کا فخریہ اعلان یہی ہے کہ آئندہ ایک سال کے لیے تمام بین الاقوامی ادائیگیوں کا انتظام کردیا گیا ہے ،کاش یہ
بھی بتادیا ہوتا کہ یہ انتظام کس کس سے بھیک مانگ کر اور کس کس سے منتیں کرکے کیا گیاہے، اگر آج پی ٹی آئی حکومت ہوتی تو شائد اس کا وزیر خزانہ بھی یہی بات کہ رہا ہوتا کہ ہم نے آئی ایم ایف سے آسان شرائط پر مزید قرض لے لیا اور تمام قرضوں کی ادائیگی کا انتظام بھی کردیا ہے،یہ بات تو اتنی عام ہوگئی ہے کہ قرضوں پر سود اور ان کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں اور اس کام کو ہمارے تمام حکمران کامیاب معاشی حکمت عملی قرار دیتے ہیں،یہ گداگری کب تک چلتی رہے گی

اور کب تک قرضوں کے ساتھ سود کا سارا بوجھ عوام پر ڈالا جاتا رہے گا،سیاسی قیادت اقتدار میں آکر ایک طرف قرض پر قرض لیتے جارہے ہیں تو دوسری جانب خود انحصاری کا درس بھی دیتے ہیں، لیکن اس پر خود عمل کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ،اس خود انحصاری کی منزل کی جانب پہلا قدم اُٹھا ہی مشکل ہے ،یہ پہلا قدم جونہی اُٹھے گا، منزل آسان ہوتی چلی جائے گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں