سیاسی استحکام کیسے آئے گا
ملک میں اقتدار کیلئے جاری رسہ کشی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو تی جارہی ہے ، پی ٹی آئی کرسی کے بغیر چند ماہ صبر کر سکتی ہے نہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت مقررہ آئینی مدت سے پہلے انتخابات کرانے کیلئے تیار ہے، دونوں کی اپنی مصلحتیں اور اپنے مفادات ہیںاور ان مفادات کے حصول میں سب جائز و ناجائز حربے استعمال کیے جارہے ہیں، تاہم اس ضد اور بے صبری کے ماحول میں ملک کے مفادات پس منظر میں جاتے صاف نظر آرہے ہیں۔اگر دیکھاجائے تو ملک سے کسی کو غرض ہے
نہ عوام کی کسی کو کوئی پرواہ ہے ،فریقین کا مقصد حصول اقتدار ہے اور اس کیلئے سارے حربے آزمائے جارہے ہیں ،پی ٹی آئی قیادت نے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کرکے سب کو مشکل میں ڈال دیا ہے،موجودہ حالات میں اپنی اسمبلیوں کی تحلیل ایک بڑافیصلہ ہے، پی ٹی آئی کی دو صوبوں میں حکومت ہے اور سارے انتظامی معاملات ان کے ہاتھ میں ہیں ،لیکن اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد سارا منظر بدل جائے گا
، اگر اسمبلیاں چلی گئیں اور نگران حکومت کاکسی بھی وجہ سے جھکائو وفاقی حکومت کی طرف ہوگیا توتحریک انصاف کے لئے انتہائی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں،یہ سب کچھ تحریک انصاف قیادت نے ضرور سوچا ہوگا کہ بدلتے حالات کے ساتھ کو نسی سیاسی حکمت عملی اختیار کر نی ہے ، ویسے اسمبلی تحلیل کے بعد نوے روز میں الیکشن کرانالازم ہے،اس لیے وفاقی حکومت کو اتناوقت مل پائے گا کہ مخالفین کو زیادہ دبا سکے ،دوسرا یہ بھی اندیشہ ہے کہ انہیں بھی قومی اسمبلی تحلیل کرنا پڑسکتی ہے۔
تحریک انصاف قیادت کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کے بعد سے ایک سوال تسلسل سے پوچھا جا رہا ہے کہ ایساپہلے کیوں نہیںکیاگیا؟اس کے جواب میںظاہر ہے کہ انہوں نے اپنی ترجیحات کے مطابق فیصلے کرنے ہیں، ہرتیر چلانے کا کوئی ا یک وقت ہوتا ہے،ایسے ہی بلاوجہ بیٹھے بٹھائے تیر چلاتے رہنے سے نشانے پر لگتا ہے اور ترکش بھی جلد خالی ہوجاتا ہے ،عمران خان نے جس طرح لانگ مارچ کا پلان بنایا،
اس میں تاخیر کرتے رہے اور پھر بروقت دبائوڈالا، اس کا مقصد تھا کہ اہم فیصلوں میں بطور سٹیک ہولڈر جگہ بنائی جائے،انہیں مطلوبہ مقاصد کس حد تک حاصل ہوئے یا نہیں،لیکن اس سے بڑھ کر مسئلہ تھا کہ جو اتنی ہائپ بنائی گئی ہے، اسے اچھے طریقے سے منطقی انجام تک پہنچایا جائے ،پنڈی کے جلسے میں عمران خان سے بڑا اعلان متوقع کیا جارہا تھا،اس حوالے سے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان بہرحال ایک بڑا دھماکہ ثابت ہواہے۔تحریک انصاف قیادت کے اعلان کے بعد ایک طرف پارٹی کارکنان خوش ہو کر واپس چلے گئے
تو دوسری جانب اتحادی حکومت پر تیر نشانے پر لگا ہے،حکومت کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تحریک انصاف پنجاب اور کے پی اسمبلی تحلیل کر کے صوبائی الیکشن کی طرف چلی جائے گی،پی ڈی ایم اور خاص کر( ن )لیگ پنجاب میں الیکشن نہیں چاہتی،اگر صوبائی الیکشن ہوئے تومسلم لیگ( ن )کے لئے بہت ہی بری صورتحال بنے گی،اس کے وزرا اور وزیراعظم الیکشن کمیشن کی پابندیوں کی وجہ سے جلسے جلوس کر سکیں گے
نہ بے پناہ مہنگائی اور اپنی ناقص کرکردگی کا کوئی جواز پیش کر سکیں گے،اس سے بھی بڑی پر یشانی کی بات ہے کہ اگر دونوں صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن میں پی ٹی آئی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئی تو پی ڈی ایم کے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا، صرف ستائیس کلومیٹر پرپھیلی وفاقی حکومت اپنا اقتدار بچا پائے گی نہ جنرل الیکشن میں پی ٹی آئی کا مقابلہ کر پائے گی ۔
اس بدلتی سیاسی صورتحال میں پی ڈی ایم کی بھر پور کوشش ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل روکی جائے
،لیکن پنجاب اسمبلی کا مسلسل اجلاس جاری ہے ، قانون کے مطابق تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کی جاسکتی ،جبکہ تحریک انصاف کسی بھی وقت اجلاس ملتوی کرکے اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس گورنر کو بھیج سکتی ہے ، گورنر اسے لٹکا تو سکتے ہیں، مگرآخر کار ماننا ہی پڑے گا،اس پرپی ڈی ایم کے دماغ اکھٹے ہو کر سوچ بچار کر رہے ہوں گے،
ان کے پاس یقینی طور پر کوئی پلان ہوگا،وہ اتنی آسانی سے ہار نہیں مانیں گے ،تاہم عمران خان اتنے ضرور کامیاب ہوگئے ہیں کہ اپنے مخالفین کی توجہ لانگ مارچ کی ناکامی اور بغیر کچھ حاصل کئے منتشر ہوجانے سے ہٹا کرہر ایک کو اسمبلیوں کی تحلیل کی طرف لگا دیا ہے۔اتحادی قیادت مانے نہ مانے عمران خان نے اپنی بات درست ثابت کر دی کہ اقتدار سے نکل کر انتہائی خطرناک ہو جائیں گے،
،پی ٹی آئی قیادت کو اسلمبلیاں چھوڑنے کے بجائے سمبلیوں میں رہتے ہوئے اپنے مطالبات منوانے کے ساتھ انتخابی اصلا حات لانی چاہئے ،تاکہ آئندہ منصفانہ شفاف انتخابات کے ذریعے عوام کی حقیقی قیادت ملک کے استحکام و ترقی کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کرسکے ،یہ بظاہر پی ٹی آئی قیادت کیلئے مشکل ضرور ،مگر ناممکن نہیں ،کیو نکہ ملک میں سیاسی استحکام ایسے ہی آئے گا!