جنرل عاصم منیر پاکستان کے سب سے زیادہ طاقتور سمجھے جانے والے منصب پر سرفراز ہوگئے ہیں، 64

سیاستدان کدھردیکھ رہے ہیں !

سیاستدان کدھردیکھ رہے ہیں !

جنرل عاصم منیر پاکستان کے سب سے زیادہ طاقتور سمجھے جانے والے منصب پر سرفراز ہوگئے ہیں،تاہم نئے آرمی چیف کی تعیناتی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے کہ جب ملک میں انتہائی سیاسی بحران ہے،موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرتی ہے یا پھر وقت سے پہلے عام انتخابات کا اعلان ہوجائے گا؟ دونوں ہی صورتوں میں عوام عام انتخابات کی جانب بڑھیں گے، اس کشیدہ صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے نئے آرمی چیف کو آئین میں رہتے ہوئے اپنا غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنا ہوگا،

تاکہ ملک میں غیر جانبدار، شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن بنایا جاسکے،افواج پا کستان تو یقین دھانی کروا رہی ہے کہ سیاست میں نہیں آئیں گے ،لیکن سیاسی قیادت ماننے کیلئے تیار نہیں ہے ،وہ کبھی دبے اور کبھی کھلے انداز میں اظہار بھی کررہے ہیں اور ان کی نظریں مقتدر حلقوں کی جانب لگی ہوئی ہیں

،سیا سی قیادت سیاست میں عدم مداخلت کا پیغام ملنے کے باوجودچور دروازوں سے ملاقاتوں کی روش ترک کرنے کوتیار نظر نہیں آرہے ہیں۔ہر دور میں سیاسی قیادت مقتدر حلقوں کے سہارے کی تلاش میں رہے ہیں اور ان کے سہارے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں ،مفاد پرست سیاستدان۵۷ برسوں سے سیاست کو مفادات کی بھینٹ چڑھاتے آرہے ہیں، اس مفاداتی سیاست نے ملک کا بیڑا غرق کر ڈالا ہے،

ملک و قوم پر ایسی نااہل سیاسی قیادت مسلط کردی گئی ہے کہ جنہیں ملک کی کوئی پروا ہے نہ عوام کی کوئی فکر ہے ،حکمران قیادت میںکوئی پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر قومی اداروں کو رشوت دے کر خرید رہا ہے تو کوئی ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا کر اداروں کی تضحیک کی روایت ڈال کر قوم کو بے وقوف بنانے کی سازش کر رہا ہے،ہر ایک اپنے طریقہ واردات پر عمل پیراں ہے اور کوئی انہیں روکنے والا نظر نہیں آرہاہے۔
اگرحقائق کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہر ایک نے ہی ملکی اداروں کا اپنے ذاتی و سیاسی مفاد میں بھر پور استعمال کرکے اداروں کو متنازع بنانے کی سازش کی ہے، قومی سلامتی کے اداروں کو مشکوک ومتنازع بنانے کی روایت کوئی نئی نہیں ،بہت پرانی ہے ، نوے کی دہائی سے پاکستانی سیاست میں دفاع وسلامتی اور انصاف کے اداروں کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے حصول کی خاطر کھینچا جاتا رہا ہے ،

پی ٹی آئی قیادت کا اداروں کے خلاف جارحانہ انداز درست نہیں، مگر سات ماہ قبل لندن میں بیٹھ کر سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نہ صرف طاقتور اداروں کی اہم شخصیات کے نام لے کر للکارتے رہے ہیں ،بلکہ قوم کو اداروں کے خلاف اْکساتے بھی رہے ہیں،کل تک جو لوگ سرعام اداروں کی تضحیک کا سبب بنے آج ا قتدار پر براجمان ہوتے ہی ان اداروں کے محافظ بننے ہوئے

ہیںاور دوسروں کو اداروں کی عزت واحترام کا سبق دیے رہے ہیں۔ایک طرف مفاد پرست سیاسی قیادت کے قول فعل کا تذاد ہے تو دوسری جانب اداروں کو نشانہ بنانے والوں میں بھی پسند ناپسند کی تفریق رکھی جارہی ہے ،ملکی اداروں پر تنقید کرنے والے سب یکساں ہیں اور سب کے خلاف بلا امتیاز کاروائی ہو نی چاہئے،ملک کے دفاع و سلامتی اور قانون و انصاف کے اداروں کی تضحیک کل بھی قابل مذمت تھی

اور آج بھی قابل مذمت ہے، قوم ایسی سیاسی بصیرت مانتے ہیں نہ ایسی سیاسی بصیرت کا ساتھ دینا چاہتے ہیں کہ جس میں قومی اداروں کوحرف تنقیدبناجائے، قوم اداروں کی سیاست میںعدم مداخلت کے پیغام کو سرا تے ہوئے اپنی بہادر افواج کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہے، قوم اپنی فوج کے بعد عدالیہ سے بھی ایسے ہی پیغام کی توقع رکھتی ہے، تاکہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا ہوسکے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں

کہ مقتدر حلقوں کے سربراہوں کے لیے پاکستان سب سے پہلے اور پاکستان ہی سب سے اہم ہے، اس لیے سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اپنی سیاسی لڑائیاں سیاسی میدان میں لڑیں، ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کے لیے کام کریں، اگر مسلم لیگ( ن ) اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ اتحاد ھکومت بناسکتے ہیں اور پی ٹی آئی قیادت امریکی سفیر سے ملاقات کر سکتے ہیںکہ جنہیں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کی سب سے بڑی وجہ قرار دیاجاتا ہے تو پھر ایک دوسرے سے بات چیت کرنے میں کیا حرج ہے

، جمہوری رویے صرف اپنے فائدے تک محدود نہیں ہونے چاہئے،سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملک دشمنوں جیسا سلوک یا تضحیک آمیز رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے، سیاسی قیادت کو ادھر اُدھر دیکھنے کے بجائے سیاسی معاملات سیاسی انداز میں مل بیٹھ کر حل کرنے چاہئے ، لیکن سیاسی قیادت کی نظریںنئے آرمی چیف پر ہی لگی ہیں،سیاسی قیادت نئے آرمی چیف کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے رویوں پر نظر ثانی کر ے ،اس میں ہی جمہور کے ساتھ جمہوریت کی بھی بہتری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں