46

پائیدار امن کیلئے سیاسی استحکام !

پائیدار امن کیلئے سیاسی استحکام !

ملک جب سے سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہوا ہے ،شدت پسندی کے واقعات میں غیر معمولی تیزی آئی ہے ،اس دوران خیبر پختونخوا کے زیادہ تر علاقے شدت پسندی کے واقعات کا خاض ہدف بن رہے ہیں ،اس صورت حال کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے یہ معاملہ بھی وفاق اور صوبائی حکومت کے مابین سیاسی کشمکش کا جواز بننے لگا ہے ،شدت پسندی سے نمٹنے کی حکمت عملی میں وفاق ہمیشہ سے سر پرستی کا کردار ادا کرتا آیا ہے

،مگر پہلی بار دیکھنے میں آرہا ہے کہ شدت پسندی کے بڑھتے خطرات نہ صرف سیاسی تنازع بن رہے ہیں ،بلکہ اس کی ذمہ داری بھی ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے ،یہ سیاسی جماعتوں کی غیر سنجیدگی قومی سلامتی کو لاحق خطرات میں مزید اضافہ کرتی ہے ۔ملک بھر میں سیاسی انتشار ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے

،اس سیاسی انتشار سے ملک دشمن عناصر نہ صرف فائدہ اپتھانے کی کوشش کررہے ہیں ،بلکہ اپنے طور پر بڑی حد تک کامیاب بھی ہورہے ہیں ،قومی سلامتی کو لاحق خطرات میں سیاسی قیادت کی اولین ذمہ داری تھی کہ باہمی اختلافات سے قطع نظرقومی یکجہتی کیلئے مفاہمت کی جاتی اور ملک وقوم کے خلاف ابھرتے خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے قومی ہم آہنگی کی روایت دہرائی جاتی ،مگر اس کے برعکس ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کی جارہی ہیں ،ایک دوسرے پر سارا ملبہ ڈالا جارہا ہے

،دہشت گردی کے خطرات کسی ایک سوبے کا مسئلہ ہے نہ ہی اس نقطہ ٔ نظرسے پا لیسی تشکیل دی جاتی ہے ،یہ ایک قومی مسئلہ ہے اوراس سے قومی سطح پر ہی نمٹنے کی حکمت عملی ترتیب دی جاتی ہے ،سیاسی قیادت کیلئے ضروری ہے کہ اس معاملے میں شک و شبہات سے گریز کرے اورنیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد یقینی بناکیلئے سیاسی یکجہتی کا مظاہرہ کرے ،سیاسی یکجہتی اور قو اتحاد سے ہی دہشت گردی کا سد باب کیا جاسکتا ہے

۔یہ حقیقت ہے کہ شدت پسندی صرف حربی حکمت عملی سے قابو میں آنے والا مسئلہ نہیں ہے ،اس کیلئے معاشی وسماجی سطح پر تبدیلیاں جہاںنا گزیر ہیں ،وہیں ملک میں سیاسی استحکام بھی در کار ہے ،ماضی میں قبائلی شدت پسندوں کے خلاف آپریشنز میں یہی حکمت عملی اپنائی گئی تھی کہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خاتمے کے بعد سیاسی و سماجی بہتری کیلئے ضرور اقدامات کیے جائیں گے

،تاکہ ان علاقوں کے عوام کی محرومیوں کا بھی ازالہ کیا جاسکے ،اس مقصد کے ساتھ ہی قبائلی علاقہ جات کو خیبر پختونخوامیں ضم کیا گیا تھا ،مگر شہری سہو لیات اور معاشی وسماجی سر گرمیوںپر خصوصی توجہ نہ دی جاسکی ،اس کا ہی نتیجہ ہے کہ شدت پسندی کے خطرات از سر نو سر اُٹھارہے ہیں اور مرکز وصوبائی حکومت ایک دوسرے کو مود الزام ٹھرا رہے ہیں ۔پاکستان کی سیاسی قیادت اپنے قومی مفاد کو پس پشت ڈالتے ہوئے

ذاتی حصول میں مفاد میں دست گریبان ہے ،مگر عسکری قیادت دہشت گردی کے عفریت کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے اور اس نے حکمتِ عملی بھی تیار کر لی ہے کہ جس کے تحت دہشت گردوں کو ان کے ٹھکانوں پر نشانہ بنایا جائے گا،آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بھی اپنے خطاب میں عزم کا اعیادہ کیاہے کہ دہشت گردوں اور سہولت کاروں کا گٹھ جوڑ توڑ کر سماجی اور اقتصادی ترقی سے پائیدار امن یقینی بنائیں گے

،آرمی چیف کا دہشت گردی کے خلاف عزم بر محل ہے ،تاہم ملک بھر میں شدت پسندی کے ان چیلنجزسے نمٹنے کیلئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے ،ملک میں جب تک سیاسی استحکام نہیں آئے گا شدت پسندی کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جاسکے گا۔ملک میںقیام امن سب ہی کی ضرورت ہے، اس معاملے میں کوئی حکومت کوئی اپوزیشن نہیں ہے، تمام سیاسی جماعتوں کو ملک میں امن و امان قائم رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کر نا ہو گا،

حزب اقتدار اور حزب اختلاف سمیت تمام سیاسی، سماجی و دینی جماعتوں اور رہنمائوں کو مل کرقومی مفادات کے تحفظ اورپائیدار امن کے قیام کی خود بھی کوشش کرنا ہوگی اور اپنی کوششوں میںتمام محب وطن قوتوں کو بھی شامل کرنا ہوگا ،تاکہ وطن عزیز کے ازلی دشمن کی سازشوںکو مکمل طور پر ناکام اور ملک کو صحیح معنوںمیں ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکے، یہ کسی ایک سیاسی جماعت یا ادارے پر ذمّے داری عاید کرنے سے کبھی مسئلہ حل نہیں ہو گا، لیکن اگر ہم منظّم انداز میں مشترکہ جدوجہد کریں گے تو اس پائیدار امن کی چوٹی کو سیاسی استحکام کے ذریعے سَرکرنا مشکل نہیں رہے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں