ملک بھر میں ایک جانب اپوزیشن ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا اس قدر شور کررہی ہے کہ حکومتی حلقوں اور غیر جانبدار لوگوں 48

آٹے کا بحران ،غریب پریشان !

آٹے کا بحران ،غریب پریشان !

ملک میں سیاسی عدم استحکام براہ راست حکومت اور انتظامی مشینری کی کارکردگی پر اثر انداز ہونے لگا ہے ،مگرحکومتی شخصیات کی ساری توجہ اقتدار کے الجھے دھاگے سلجھانے پر ہے،اس دوران جس طبقے کا جو دل چاہتا ہے وہ کر رہا ہے،سچ تو یہ ہے کہ نچلے طبقات جب حکمران اشرافیہ کو آئے روز قانون شکنی کرتے دیکھتے ہیں،آئین کا مذاق اڑاتے دیکھتے ہیں تو دیکھا دیکھی، وہ بھی قانون شکنی میں بے باک ہونے لگتے ہیں

سیاسی عدم استحکام اور حکومتی گرفت کمزور ہونے سے طاقتوروں کے ہاتھوںمتوسط اور غریب طبقات کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے،گزشتہ دو ماہ سے آٹے کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا عمل جاری ہے، ملک میں آٹے کے بحران میں غریب پر یشان حال ہے ،سرکاری ادارے اور حکومت ساری بدانتظامی سے کماحقہ آگاہ ہے

لیکن یہ سلسلہ رکنے میں ہی نہیں آرہا ہے ، ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے گزرے برس کی طرح نیا سال بھی عوام درپیش بحرانوں کے ساتھ ہی گزریں گے۔اس میں شک نہیں کہ پی ڈی ایم اقتدار میں عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے اور رلیف فراہم کرنے کے دعوئوں کے ساتھ آئے تھی ،مگر اقتدار میں آنے کے آٹھ ماہ بعد سارے دعوئے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ،حکمران اتحاد کی جانب سے عوام کو رلیف ملنا تو در کنار، کھانے کیلئے روٹی کے دو نوالے ملنا بھی مشکل ہوتے جارہے ہیں،ملک ایک کے بعد ایک بحران کا شکار ہے

،مگر اتحادی حکومت ملک و عوام کو بحرانوں سے نجات دلانے کے بجائے اپوزیشن سے دست گریباں ہے ،اس محاذ آرائی کے نتائج عوام کو خواک کی عدم دستیابی اور بڑھتی مہنگائی کی شکل میں بھگتنا پڑرہے ہیں ،ملک
کی معیشت روزانہ کی بنیادپر تحلیل ہو رہی ہے اور بنیادی ضروریات عوامی پہنچ سے دورہوتی جارہی ہیں ،عوام آئے روزبڑھتے مسائل میں پریشان حال ہیں ،جبکہ سیاسی قیادت کیلئے عوامی مسائل کی اہمیت سیاسی پوا ئنٹ سکورنگ کے مواد سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے ۔
ملک و عوام بحران در بحران کا شکار ہوتے جارہے ہیں اور حکمران قیادت سابقہ حکومت اور آئی ایم ایف کو مود الزام ٹھرانے میں لگے ہیں ،اتحادی قیادت کو اقتدار میں آنے سے قبل سب کچھ جانتے تھے ،مگر وہ عوام کے مسائل کے تدارک کیلئے نہیں ،اپنے مقدمات سے نجات حاصل کرنے اور اقتدار کے مزے لینے آئے تھے

،عوام بڑھتی مہنگائی کے عذاب سے گزریں یا سستے آٹے کی عدم دستابی پر مریں ،انہیں کوئی سرو کار نہیں ہے ، حکومت کی جانب سے عوام کو رعایتی نرخوں پر آٹا فراہم کرنے کے انتظامات کہنے کی حد تک موجود ہیں ،مگر عملی طور پر ان کی افادیت کہیں نظر نہیں آرہی ہے ،حکومت کی جانب سے آٹے کا مقررہ نرخ 65 روپے کلو ہے ،مگر مارکیٹ میں آٹا160روپے کلو تک پہنچ چکا ہے،اگر حکومت سبسڈی پر گندم فلور ملوں کو فراہم کررہی ہے توپھرلور ملوں سے سستاآٹا کہاں جا رہا ہے ؟حکومت کی سر پرستی میں آٹا مافیا سر گرم عمل ہے اور اس کا شکار غریب عوام ہورہے ہیں۔
ہمارے ہاں ہر سال ہی ایک نیامعاملہ خرابی کی وجہ بنتا ہے،مگر حکومت وقت سے پہلے مسئلے کا تدارک کرنے کی تیاری ہی نہیں کرتی ہے ،حکومت جانتی ہے کہ ایک طرف اندرون ملک ناجائز منافع خور متحرک ہوتے ہیں

تو دوسری جانب آٹا اور گندم افغانستان اور وہاں سے آگے وسط ایشیائی ریاستوں تک جاتا ہے،یہ سارا عمل کبھی قانون اور حکومت کے قابو میں ہی نہیں رہا ہے ،یہ سمگلنگ کا دھندہ کل بھی ہورہا تھا اور اب بھی مسلسل جاری ہے، پاکستان نے افغان سرحد پر باڑ نصب کر دی ہے ،مگر انتظامیہ کی ملی بھگت کے باعث سمگلنگ روکی نہیں ہے ،اپنی ضرورت کی بات ہو تو پاکستان اب بھی اتنی گندم پیدا کررہا ہے، جو کہ اس کے لئے کافی ہے، لیکن طاقتور افراد کا سمگلروں کے ساتھ گٹھ جوڑ گندم کے بحران کی ایک وجہ بن رہاہے۔
حکمران اتحاد کا دعوا ہے کہ گندم وافر مقتدار مین موجود ہے اور فلور ملوں کو سپلائی بھی کی جارہی ہے ،جبکہ فلور ملز مالکان کا کہنا ہے کہ حکومت نے گندم کا یومیہ کوٹہ کم کر دیا ہے،گندم کم ملنے کی وجہ سے فلور ملز کم آٹا تیار کر رہی ہیںاور صارفین کی طلب پوری نہ ہونے کی وجہ سے آٹے کی قیمت بڑھ رہی ہے‘

یہ موقف سچ تسلیم نہیں کیا جا سکتا،کیو نکہ حکومت وافر مقدار میں آٹے کی فراہمی یقینی بنانے کی دعوئیدار ہے ، فلور ملز محکمہ خوراک اور ضلعی انتظامیہ کے افسران کی ملی بھگت سے ملنے والی گندم کی نسبت کم مقدار میں آٹا پیستی اور پھر خفیہ گوداموں میں ذخیرہ کرتی ہیں،انتظامی مشینری کام چوری اور بدعنوانی روکنا ہے ،مگر وہ آٹا مافیا کے ساتھ ملی بھگت کی اتنی عادی ہو چکی ہے کہ اس کا احساس ذمہ داری ہی مر چکاہے ۔
اس صورت حال کو جوں کا توں تو نہیں رکھا جا سکتا،حکومت کودکانوں پر آٹے کی فراہمی بحال کرنے کے ساتھ اس کے نرخوں کو قابو میں رکھنے کے لئے جہاں فوری اور موثر اقدامات کرنا ہوں گے

،وہیں انتظامیہ کو بھی فعال بنانے کے انقلابی اقدامات اُٹھانا ہوںگے ،حکمران قیادت سابقہ حکومت و دیگر اداروں کو مود الزم ٹھراکر ڈنگ ٹپائو پروگرام تو کرسکتی ہے ،مگر ملک وعوام کو درپیش بحرانوں سے نجات نہیں دلا سکتی ہے ،حکومت، انتظامیہ گندم اور آٹا مافیا کے آگے کیوں خاموش ہے، آخر اس ملک میں کب تک عوام کے ساتھ اس طرح کا سلوک ہوتا رہے گا، عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے اور وہ دن زیادہ دور نہیں رہاہے کہ جب عوام کے ہاتھ اور حکمرانوں کے گریباں ہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں