81

سیاست کا جنازہ ذرادھوم سے نکلے !

سیاست کا جنازہ ذرادھوم سے نکلے !

ملک کا معاشی سفینہ منجدھار کے بیچ ہچکولے کھا رہا ہے اور ہماری اشرافیہ اقتدار کی کرسی کیلئے دست و گریبان ہے ،ملک بھر میں سیاسی جوڑ توڑ اپنے عروج پر ہے ،حکومتی عہدیدار اپنے فہم کے مطابق حالات سدھارنے کیلئے قرضے پہ قرضے لینے میں کوشاں ہیں ،جبکہ تو اپوزیشن کی سوچ ہے کہ حکمران اتحاد کچھ بھی کرلے سفینہ بچا نہیں پائیں گے ،حکو مت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور دیار سے لگانے میں لگے ہیں

،لیکن کوئی بھی نہیں سوچ رہا ہے کہ اگر خدانخواستہ سفینہ ہی ثابت و سالم نہ رہا تو اقتدار کس کام کا ہے؟ وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ سیاست کو عارضی طور پر ہی موقوف کر کے ملک اور اس کی اقتصادیات کو بچانے کیلئے کسی مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق کی صورت پیدا کی جائے، مگر اس حوالے سے مثبت سوچ کسی کے قریب سے بھی نہیں گزر رہی ہے،سیاسی قیادت اپنے اپنے مفادات کے پنجرے میں بند ہے اور ایک دوسرے سے اپنے مطلب کی شرائط منوائے بغیر بات تک کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارے ہاںسیاست کا محور عوام کے بنیادی مسائل کے حل کی بجائے حصولِ اقتدار ہی رہا ہے اور یوں سیاست ارتقا پذیر ہونے کی بجائے مسلسل ایک گول دائرے میںہی گھوم رہی ہے، سیاست دان ہمہ ایک دوسرے کو گرانے اور دیوار سے لگا نے میں ہی کوشاں نظر آتے ہیں ،عوام کی کسی کو کوئی فکر ہے نہ ملک کو درپیش بحرانوں کا احساس ہے ،حکمران قیادت ایک طرف مفاہمت کی بات کرتے ہیں

،اپوزیشن قیادت کو پارلیمان میں آنے کی دعوت دیتے ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن جب پارلیمان میں آنے کا عندیہ دیتی ہے تو ان کے بڑی تعداد میں استعفے منظور کر کے پارلیمان میں آنے سے روکا جارہا ہے ،حکمران اتحاد کے قول فعل کا تزاد ہے کہ جس کے باعث سیاسی عدم استحکام کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔
ملک میں آئے روزبڑھتے سیاسی انتشار کے باعث معزز عدلیہ بھی بار ہا کہہ چکی ہے کہ پا رلیمانی معاملات پارلیمان میں جا کر حل کیے جائیں ،تحریک انصاف قیادت نے قومی اسمبلی میں واپس جانے کا عندیہ ایک ایسے وقت میں دیاکہ جب اپنی دونوں صوبائی حکومتیں قربان کر چکے ہیں،اس قر بانی کا مقصد صوبائی انتخابات کروانا نہیں ہیں

،بلکہ حکومت کو جنرل الیکشن کروانے پر مجبور کرنا ہے ،اس لیے ایک طرف صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرکے عام انتخابات کیلئے دبائو بڑھایا جارہاہے تو دوسری جانب قومی اسمبلی میں جا کر وزیر اعظم شہباز شریف سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے ، تاہم حکمران اتحاد میں بھی ایسے تجربہ کار سیاسی باز گر موجود ہیں ،جوکہ سیاسی گیم پلٹنے کے ہنر میں طاق ہیں ،

حکمران اتحاد نے اپنے سیاسی بازگروں کے ایماں پر ہی پی ٹی آئی کے35 ارکان قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر کے پی ٹی آئی کی منصوبہ بندی کے سامنے دیوار کھڑی کر دی ہے ،جبکہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اسمبلیوں میں جانے کا نام لیا تو حکمران اتحادکے چھکے چھوٹ گئے اور حکومت نے 35 ممبروں کا استعفیٰ الیکشن کمیشن سے منظور کر وا کے خود کو مزید گندا کر دیا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سیاسی قیادت کی ایک دوسرے کے خلاف گندی چالوں نے جہاں ایک دوسرے کو گندا کیا ہے ،وہیں عوام کے سامنے بھی سب کا حقیقی کردار اور اصل چہراآگیا ہے ، تحریک انصاف قیادت قومی اسمبلی سے استعفے دینے کے بعد پر زور مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ ان کے ارکان کے استعفے منظور کیے جائیں، جبکہ حکومتی اتحاد کا موقف تھا کہ فرداً فرداًپیش ہو کر استعفے منظور کرائے جائیں،

یہ معاملہ اسی طرح ایک عرسے سے گھسیٹا جا رہا تھا،لیکن اچانک جب استعفیٰ دینے والوںنے اسمبلی میں واپس آنے کا شوشا چھوڑا تو فوراً ہی ان کی پارٹی کے35 مستعفی ارکان کے استعفے قبول کر لیے گئے ہیں، یہ کیسی سیاست ہورہی ہے کہ جس میں ایک دوسرے کے خلاف گندی چالیں چلی جارہی ہیں،اگر دیکھا جائے تو یہ سب لوگ سیاست نہیں کر رہے، بلکہ سیاست کا جنازہ نکالنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اس صورتحال میںعوام انتہائی مایوسی کا شکار ہیں کہ سیاسی قیادت نے اپنی مفاداتی سیاست سے جمہوریت کو نزع کے عالم میں پہنچا دیا ہے، یہ صورتحال ایسے ہی برقرارہی تو جمہوریت کا چراغ کسی وقت بھی بجھ سکتا ہے، لازمی بات ہے اْسکی آخری رسو مات بھی سب کو خود ہی اداکرنا ہوں گی، اس لیے سب سے صرف درخواست ہی کی جاسکتی ہے کہ اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ یہ سیاسی قیادت کی گندی سیاست کا جنازہ ہے

، ذرا دھوم سے نکلے ،کیو نکہ ہمارئے سیاستدان ایک طویل عرصہ سیاست میں گزارنے کے باوجود ابھی تک بالغ نہیں ہوئے ہیں، اگر اب بھی سیاسی قیادت نے عقل کے ناخن نہ لئے اور ایسے ہی دست گریباں رہے اور ایک دوسرے کے خلاف گندی چالیں چلتے رہے تو خدانخواستہ پاکستان عدم استحکام کی ایسی دلدل میں پھنس جائے گاکہ جس سے باہر نکلنا ناممکن ہو جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں