46

اس دیش میں ابھی قانون زندہ ہے

اس دیش میں ابھی قانون زندہ ہے

نقاش نائطی
۔ +966562677707

ہم مانتے ہیں کہ آرایس ایس، بی جے پی ھندو وادی شدت پسند تنظیمیں، اپنی سنگھی حکومتی دباؤ میں، چمنستان بھارت میں کچھ ایسا منافرتی ماحول پیدا کرنا چاہتی ہیں کہ جہاں پر اس دیش کی سب سے بڑی اکثریت ہم 30 کروڑ مسلمان قانون و عدلیہ سے انصاف ملنے کی آس چھوڑے، خود سپردگی کرتے ہوئے،

ان سنگھی قوتوں کی خواہش مطابق، اپنے آپ کو دوسرے درجے کا شہری مانے،عزت سے زندہ رہنے کو ترجیح دیتے پائے جائیں۔ لیکن قدرت کا نیم “دل مانگے مور” ایک مرتبہ ہم مسلمان سمجھوتہ کرنے لگیں تو، یہ کفار و مشرکین یا یہ سنگھی شدت پسند یاکہ دہشت گرد تنظیمیں، ہمیں اسلام دھرم چھوڑنے اور ان کا غلام یا ملیچھ شہری بنائے رکھنے تک خاموش نہیں رہینگی ۔ اس لئے ہمیں کل مستقبل میں اپنے ایمان دھرم بچانے کی لڑائی جو لڑی جانی ہے اسے آج ہی اپنی عزت و ناموس بچانے کی جنگ کے طور لڑنا ہوگا۔

ویسے بھی ہزاروں سالہ گنگا جمنی سیکیولر تہذیبی ملک چمنستان بھارت میں، ابھی بھی انصاف نہ ختم ہوا ہے، اور نہ ہی انصاف کے اقدار باقی رکھنے کی جہد یا تگ و دو ختم ہوئی ہے۔ویسے بھی ہم 30 کروڑ مسلمان، اپنی آل اولاد کی پرورش کی فکر میں، ایسے مدہوش ہیں کہ اس سنگھی مودی یوگی منافرتی راجیہ میں،

انکے مستقبل کو تاریک کرنے کی جو فکریں کاوشیں ہو رہی ہیں وہ ان تمام تفکرات سے آزاد،اپنے اللہ پر توکل کابہانہ بنائے، اپنی عیش و عشرت کی زندگی، جینے ہی میں مست و مصروف ہیں۔ویسے بھی ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا پڑیگا کہ ہم 30 کروڑ مسلمانوں کی عزت و ناموس کی جنگ، ہم مسلمین سے زیادہ، اس چمنستان بھارت کے سیکولر ذہن ھندو بھائی ہم سے زیادہ ہمارے لئے لڑ رہے ہیں

ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ ایک سو تین سالہ جمیعت العلماء ھند، پورے ھند کے مسلمانوں کی نمائیندگی کرتے ہوئے، دانستہ جھوٹے دہشت گردانہ مختلف مقدمات میں پھنسائے گئے، دس دس، بیس بیس سال سے، کال کوٹھریوں میں قید و بند رکھے گئے، دیش کے مختکف حصوں صوبوں شہروں کے مسلم نوجوانوں کی رہائی کے لئے، لامتناہی جنگ مختلف مقدمات کی شکل لڑ رہی ہیں۔ لیکن افسوس ہوتا ہے 30 کروڑ ہم مسلمانوں میں ہی سے،ایک فیصد ہی تونگر ترین افراد جوکہ 30 لاکھ کے قریب بنتے ہیں،

گاہے بگاہے اپنی بیٹیوں کی شادی بیاہ پر کروڑوں خرچ کرتے پائے جاتے ہیں، لیکن چمنستان بھارت کی مسلم امہ کے شاندار مستقبل کے لئے، انہیں اتنی فکر ہوتی محسوس نہیں ہوتی ہے، جتنی سنگھی شدت پسندوں یا کہ دہشت گردوں کے، ہم مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے سد باب کے لئے متقاضی ہے۔ اسی لئے سنگھی مودی یوگی کے سات آٹھ سالہ منافرتی دور میں،آئے دن چمنستان بھارت کے کسی نہ حصہ صوبے یا شہر میں، کسی بھی مسجد، مدرسے کو، بغیر قانونی کاروائی شہید کئے جانے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔

اور ہم مسلمان اسے بھی، 130 کروڑ گنجان آبادی والے ملک میں، آئے روز ہونے والے سڑک حادثاتی خبر کے طور ہی، ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتے ہیں۔ حد تو یہ ہوگئی شہنشاء ھند شیر شاہ سوری کے 5 سالہ زمام حکومت میں، 480 سال قبل تعمیر پرانی تاریخی مسجد کو صرف سڑک توسیع کے بہانے شہید کیا گیا اور نہ صرف بھارت کے ہم 30 کروڑ مسلمان خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہ گئے، بلکہ اس دیش کی سیکولر ذہن ھندو اکثریت بھی چوں و چراء نہیں کر پائی ہے۔
یوپی میں سولہویں صدی کی تاریخی مسجد سڑک توسیع کے نام پر شہید کردی گئی ہم مسلمانوں پر ہورہے مظالم کے خلاف اور خصوصا ہمارے مذہبی عبادت خانے مساجد اور مدارس شہید کئے جانے پر دیش کی سب سے بڑی اقلیت ہم 30 کروڑ مسلمانوں کی یہ مجرمانہ خاموشی ہی ان شدت پسند سنگھی قوتوں کو جلا بخشے ہوئے ہے۔ 9/11 امریکی دہشت گردانہ حملے بعد، پورے عالم میں اسلامو فیوبیا منافرتی بازارجو گرم کیا گیاتھا

اس کے اثرات، دانستہ طور بھارت میں کچھ زیادہ ہی عمل آور کئے گئے تھے خصوصا” 21وین صدی کی ابتدا میں آر ایس ایس، بی جے پی، ہی کی دہشت گرد تنظیمی شاخ ،ابھینؤ بھارت کی طرف سے دیش کے مختلف صوبوں حصوں شہروں میں شروع کئے گئے، بم دھماکوں کا ذمہ دار ٹہراتے ہوئے، جس سازش کے تحت دیش کے مسلم تعلیم یافتہ ہزاروں نوجوانوں کو پھنسایا گیا تھا،اور انہیں بچانے آگے آنے والے وکلاء تک کا مقاطعہ کیا گیا تھا اس سے ہم مسلمانوں کو اپنے دفاع سےماورائیت اختیار کرنے پر اکسایا گیا تھا

لیکن الحمد للہ 103 سال قبل انگرئزوں کے زمام حکومت میں دیوبند قائم جماعت العلماء ھند نے ایک حد تک بھارت کے مسلمانوں کے دفاع کی جنگ قانونی طریقہ سے لڑی ہے۔ لیکن سابقہ 8 سالہ مہان مودی یوگی سنگھی منافرتی رام راجیہ میں، جس منظم طریقہ سے یکے بعد دیگرے دیش کے دستور العمل، اور قانون و عدلیہ کوبالائے طاق رکھتے ہوئے، مسلم مساجد و مدارس پر سنگھی بلڈؤزر چلائے جاتے رہے ہیں،

اسکے لئے دیش کے مختلف صوبوں شہروں میں مسلم رضاکار وکلاء کی کوئی فعال این جی او معرض وجود لایا جانا ضروری ہے، جو ایسے وقت فوری طور عدلیہ سے رجوع ہوتے ہوئے، سنگھی حکومتی انہدامی کاروائی پر عدلیہ سے روک دلواسکے اور انہدامی کاروائی پر بھی قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے، ان مساجد و مدارس انتظامیہ کو انصاف دلوایا جاسکے۔ممکن ہے اس سمت پہلے ہی پیش رفت ہوچکی ہو جس کا علم ہمیں نہ ہو۔

لیکن اگر ایسی کوئی این جی او معرض وجود آچکی ہے تو سائبر میڈیا تشہیر ہی سے اس بابت عوام کو مطلع کیا جانا چاہئیے۔ کرناٹک میں دیے دو دیے قبل فساد زدگان مسلم متاثرین کے مقدمات لڑنے کے لئے، مسلم اوکلا فارم بنائی گئی تھی، کیا اب بھی وہ فعال ہے؟ مساجد و مدارس پر سنگھی گاز کرنے کی صورت انکے دفاعی مقدمات لڑنے کے لئے سیکیولر قوتی رضا کار وکلاء فارم بنانا ناگزیر عمل ہے
ثانیا” ایکسویں صدی کی ابتداء میں ھندو شدت پسند تنظیم ابھینؤبھارت کے ھند پر دہشت گردانہ حملوں میں پھنسائے گئے،اور جمیعت العلماء ھند کی طرف سے، کئی سالوں بعد، انہیں جیل کی صعوبتوں سے آزاد کئےجانے والے، بے قصوروں کی طرف سے، انہیں جھوٹے مقدمات میں پھنساتے ہوئے انکی جوانی کے بہترین سال قید و بند میں بتانے پر مجبور کرنے یا کرانے والے،بھارتیہ تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذمہ داران یاکہ پولیس فورس کے ذمہ داران کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے

، انہیں سزا دلوانے کی سعی کہ جانی چاہئیے۔ تاکہ تحقیقاتی ایجنسیوں یا پولیس فورس کے کسی سنگھی ذہن آفیسرز کو مستقبل میں، کسی بھی بے قصور کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کی ہمت و جرات نہ ہوپائے ثالثا” بغیر جرم ثابت ہوئے لمبی مدت سے قید و بند کی سزا کاٹ رہے تمام قیدیوں کو جیل میں رہتے ہوئے انہیں یونیورسٹیوں میں طویل مسافتی تعلیمی کورسز کے ذریعہ، امتحانات دیتے ہوئے، اعلی تعلیم حاصل کرنے کا حق دلوایا جانا چاہئیے اور یہ کام کوئی رضاکار وکلا فارم ہی بہتر طریق کرسکتے ہیں۔

بے شک اس ملک پر سابقہ 8 سالوں سے حکومت کررہی آرایس ایس، بی جے پی، کسی نہ کسی بہانے، اس دیش کی سب سے بڑی اقلیت ہم 30 کروڑ مسلمانوں کو زک و ہتک پہنچاتے ہوئے، ایک طرف جہان، اقلیتوں کو خوف و ڈر والے ماحول میں صدا رکھے، انہیں معشیتی و معاشرتی ترقیات سے مانع رکھنے میں کامیاب ہورہے ہیں تو دوسری طرف 80%دیش کی ھندو اکثریت کو،15% مسلم اقلیت کا ڈر بتا اور جتا، دراصل یہ سنگھی قوتیں، ھندو اکثریتی ووٹ بنک کو رجھانے کی کوششوں میں ہی لگی ہوئی ہیں

۔ آج بھی ہزاروں سالہ گنگا جمنی سیکیولر اثاث بھارت کا دستور العمل اور اس دیش کی ھندو اکثریت، شدت پسند ھنو وادی برہمنی راج کے خلاف ہی ہے۔ وہ ہزاروں سال سے ان کے پور وجوں سے چلے آرہے گنگا جمنی سیکیولر آثاث کو چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں۔ اسی لئے تو باوجود اتنی کوششوں کاوشوں کے،آرایس ایس بی جے پی اور انکی ذیلی شدت پسند مختلف حصوں ھندو تنظیموں کے کروڑوں رضاکاروں کی کوششوں کے باوجود، مہان مودی جی، ایک تہائی بھارتیہ ووٹوں سے زیادہ حاصل نہیں کرسکے ہیں

۔اگر 2024 عام انتخاب میں چمنستان بھارت کے دوتہائی سیکیولر ذہن اکثریت، بھارت کو اب تک کی سب سے زیادہ معشیتی تنزل پزیری کی طرف لے جانے والی مودی سرکار سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہیں تو یقینا بھارت کو ان سنگھی برہمنی لوٹ کھسوٹ برباد ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے

کہ دیش کی عدلیہ کو ان سنگھی جنونیوں کے ہاتھوں، یرغمال بنائے جانے کی تمام تر کوششوں کاوشوں کے باوجود، اس مہان دیش کی سیکیولر سبھیتا والی عدالتیں ابھی تک آزاد ہیں اور دیش کی مختلف بڑی عدالتوں کے اہم مناصب پر جسٹس چندر چوڈ جیسے خود دار ججز ابھی تک مصروف عمل ہیں۔اور یقینا صحیح سمت انصاف طلب کرنے والے مایوس بھی نہیں رہینگے۔ انشاءاللہ وما علینا الا البلاغ

کیاعالم کے سب سےبڑے جمہوری ملک بھارت میں ابھی قانون زندہ ہے؟

یہ جو گیروی پگڑی والے مولانا بول رہے ہیں، کیا بھارت کے ہم 30 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ مستقبل میں یہی کچھ ہونے والا تو نہیں ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں