30

اقتدار کی دوڑ

اقتدار کی دوڑ

تحریر:محمد کاشف اکبر
رب کریم نے انسان کو اپنا نائب بنایا تو اسے اختیار حاکمیت بھی دیا اور دنیا کو تسخیر کرنے کی طاقت بھی یہی بات ہے کہ ناصرف چرند پرند اس کے تابع ہیں بلکہ خاص لوگ کنبوں، قبیلوں، خطوں اور ریاستوں پر حاکمیت بھی کرتے ہیں فرق صرف اتنا سا ہے کہ خاص لوگ یعنی رحمان کے بندے اقتدار اعلیٰ کو اللہ تعالیٰ کی امانت اور لوگوں کی خدمت فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس نیا نظام ِعالم ترتیب دینے کی کوشش کرنے والے شیطان کے پجاری اسے اپنی اہلیت اور حق سمجھ کر ان پر طاقت آزماتے ہیں

۔موجودہ نظام ِدنیا میں کوئی ایسا خطہ خاکسار کی سوچ سے بالا ہو گا جہاں حاکمیت ابتدائی طرز پر کی جاتی ہو گی کیونکہ جہاں اقتدار خدمت تصور کیا جاتا ہے وہ ایمان والے نہیں اور جو مسلمان ہیں وہاں حاکمیت محض اب فرعونیت ہے جہاں کسی کو کسی طرح ہرانا اور خود اقتدار کی کرسی پر قابض ہونا ہی جیت سمجھی جاتی ہے

گزشتہ دنوں 31 سال بعد آزادکشمیر میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو خود بطور امیدوار ہونے کی وجہ سے بڑے ہی قریب سے اس اقتدار کے کھیل کو دیکھا، کہ لوگ محض کونسلر اور ڈسٹرکٹ کونسلربننے کے لیے دولت لٹاتے، جیت چھینتے ہوئے تو سنا اور دیکھا تھا ان بیچاروں کو تو دہائیاں پرانی دفن نیکیاں گنواتے اور احسانات جتلاتے بھی دیکھا ہے پہلے پہل تو راقم کی سوچ یہ تھی کہ لوگ ان پڑھ ہیں اس لیے انھیں علم نہیں مگر اب کی بار لوکل الیکشن میں پڑھے لکھے اور باشعور سمجھے جانے والے اکثریتی نوجوان تھے جن سے یہ سب ہوتا دیکھا کہ چائے کی پیالی کا احسان بھی چڑھایا گیا

کہیں فاتحہ پڑھنے اور کہیں نہ پڑھنے پر ہمدردیاں بدلی گئیں۔ پندرہ سو نفوس پر مشتمل آبادی پر کونسلری کے لیے لاکھوں تو کہیں دو ہزار ووٹ کے لیے کروڑوں لگائے گئے محض اپنی انا کی تسکین بشکل جیت کے لیے۔المیہ تو یہ ہے کہ یہ کھیل اس خطے میں کھیلا گیا جہاں تعلیمی شرح تقریباً 75 فیصد ہے تاہم اس الیکشن کی ایک بڑی خوبی یہ رہی کہ اس میں دھاندلی اور لڑائی جھگڑے کے کوئی شواہد نہیں ملے جو مستقبل کے لیے خوش آئند و تاریخ ساز عمل ہے۔ سندھ جہاں محض چند دن پہلے الیکشن ہوئے ہیں

وہاں سرعام دھاندلی کے ریکارڈ بنائے گئے پیپلزپارٹی ہو پی ٹی آئی یا ن لیگ جہاں جو طاقت میں تھی اس نے بھرپور طریقے سے اقتدار چھین کر اپنے نام کیا تحریک لبیک جس کے بارے میں یہ توقع کی جا رہی تھی کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ خوب مقابلہ کرے گی اور چالیس پچاس فیصد سیٹیں حاصل کرے گی اس کا نام و نشان مٹا کر جماعت اسلامی جس کا نام و نشان نہ تھا کو بڑی طاقت کے ساتھ سامنے لایا گیا

۔ایک خبر تو یہ بھی ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی کو توڑنے کے بعد عمران خان نے ن لیگ کی طرف سے جنرل الیکشن کے لیے راضی نہ ہونے پر آمدہ ضمنی الیکشن میں قومی اسمبلی کے تینتیس حلقوں سے خود الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جس کامقصدصرف عوامی طاقت دیکھانا ہے جبکہ دوسری طرف صرف عوام کے وقت اور پیسوں کا زیاں ہے۔ پی ڈی ایم اقتدار چھوڑنے پر راضی نہیں اور عمران خان اقتدار لینے پر بضدہیں تاہم جب وہ خود اقتدار میں تھے تو کوئی خاطر خواہ عوامی خدمت نہ کر سکے کیونکہ مہنگائی کے جن کو وہ بھی قابو نہیں کر سکے تھے خیریہ بات تو اب پرانی ہو گئی۔

موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے تو اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ مہنگائی روزبروز بڑھ رہی ہے صنعتیں بند ہو رہی ہیں غریب فاقوں سے خودکشیوں تک پہنچ چکا ہے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ مگر اقتدار کی مسند پر براجمان عوام سے اعتماد کا ووٹ لینے پر تیار نہیں انھیں ملک کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خوف نہیں بلکہ وہ الٹا سیاست سیاست کھیل رہے ہیں شاید انھیں علم ہے کہ وہ اگر الیکشن میں گئے

تو دوڑ سے باہر ہو جائیں گے اور دوڑ سے باہر ہونے والوں کو بخوبی علم ہے کہ وہ کس طرح منتوں محتاجیوں سے اقتدار تک پہنچے ہیں اب اگر باہر ہو گئے تو عیاشیاں ختم ہو جائیں گی۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اقتدار ایسے ہی چھوڑ دے یہ کوئی مہذب ملک اور مہذب شہری تھوڑے ہیں جو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کی طرح خود اقتدار سے الگ ہو جائیں محض اس لیے کہ انھیں علم ہو جائے

کہ وہ بہتر انداز میں خدمت نہیں کر سکتے جس طرح نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے ایک پریس کانفرنس کی اور استعفیٰ پیش کر کے الیکشن کی تاریخ دے کر چلتی بنیں۔بات تو سچ ہے پر بات ہے رسوائی کی کہ ہمیں مہذب شہری بننے میں ابھی بھی دہائیاں لگیں گی۔ جدید ٹیکنالوجی اور علم کی ڈگریاں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔٭٭٭
(کالم نگار مختلف سیاسی،معاشی اور ثقافتی مسائل پر لکھتے ہیں)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں