67

ایک بُھولا بسرا کردار، سردار کوڑے خان جتوئی

ایک بُھولا بسرا کردار، سردار کوڑے خان جتوئی

مہرین فاطمہ تھہیم مظفرگڑھ

سردار کوڑے خان جتوئی ضلع مظفرگڑھ کی پسماندہ تحصیل علی پور کے قصبہ جتوئی کے بجائے اگر اپر پنجاب کے کسی علاقے سے تعلق رکھتے تو ان کا مرتبہ سرسیداحمد خاں سے بڑھ کر ہوتا۔ مگر سردار کوڑے خان کا نام اور کام عام آدمی تک تو نہ پہنچ سکا مگر ان کے وقف سے کھلواڑ کرنے والوں نے مرحوم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد آج تک یعنی پورے ایک سو چھبیس سالوں میں ان کی جائیداد سے کروڑوں روپے ہڑپ لیے۔
سردار کوڑے خان جتوئی 1800ء میں مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور کے قصبہ جتوئی میں سردار سعد خان جتوئی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آج سے دو سو بائیس سال قبل جتوئی کا کیا حال ہوگا؟ تعلیم کی کیا صورتحال ہوگی؟ ایک ایسا سردار جو علاقے کے پورے جتوئی قبیلے کا سربراہ ہو۔

اس کی زمین تین اضلاع میں پھیلی ہو اور زمین بھی ایسی جو پانچ دریاو?ں کے سنگم پر واقع ہو۔ اس کی آمدنی تب بھی کتنی ہوگی۔ اور زمین بھی تھوڑی نہیں۔ دو لاکھ اڑتالیس ہزار دو سو ساٹھ کنال یعنی اکتیس ہزار بتیس ایکڑ۔ اگر اسے مربعوں میں بتایا جائے تو یہ زمین ایک ہزار دو سو اکتالیس مربعے بنتی ہے۔ یہ سردار کوڑے خان جتوئی کی صرف ملکیت ہی نہیں باقاعدہ زیر قبضہ تھی۔زمین کے مالک کوڑے خان انیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں انگریز سے ”خان بہادر‘‘ کا لقب اور اعزازی مجسٹریٹ کا عہدہ رکھنے والے ایسے سردار کا اندازہ لگائیں جو اپنی عدالت لگاتا ہو اور اس کی ذاتی جیل ہو۔

برصغیر کے پسماندہ ترین علاقے میں ہر قسم کا اختیار رکھتا ہو۔ اس کی تعلیم واجبی چھوڑ بالکل ہی نہ ہو، مطلب یہ کہ بے رحم سردار بننے کے سارے لوازمات موجود ہوں اور وہ شخص 1894ء میں ایک ایسا وصیت نامہ لکھے جو پورے برصغیر پاک و ہند میں تعلیم کے فروغ کیلئے پہلا اور اس سلسلے میں برصغیر کے سب سے زیادہ اراضی کے حامل وقف کا درجہ رکھتا ہو تو اس شخص کی تعلیم اور انسانیت سے محبت کا اندازہ لگانا کم از کم آج تو ممکن ہی نہیں۔سردار کوڑے خان کی انسان دوستی، تعلیم پروری اور خاص طور پر اپنے علاقے کے غریب اور نادار لوگوں کے لیے کی جانے والی اس کی کاوشیں کبھی ہم لوگوں تک پہنچ ہی نہیں پائیں۔

سردار کوڑے خان جتوئی نے 1884ء میں اپنے علاقے میں پرائمری سکول قائم کیا۔ اب آپ یہ کہیں کہ پرائمری سکول ہی کیوں؟ ہائی سکول یا کالج کیوں نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تب انگریز بہادر کی حکومت تھی اور اس کی تعلیم دوستی کی شہرت کے باوجود بہت سے علاقوں کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھنا باقاعدہ منصوبے کا حصہ تھا اور وہاں ایک خاص حد سے بڑھ کر تعلیم کی روشنی پھیلانے کی اجازت عام نہیں تھی

۔ ویسے بھی جتوئی میں آج سے ایک سو اٹھتیس سال قبل پرائمری سکول کا قیام بھی کسی یونیورسٹی سے کم نہ تھا اور سکول بھی ایسا جس میں فیس کا کوئی تصور ہی نہ ہو۔ اس سکول کے قیام سے نو برس قبل یعنی 1875ء میں سردار کوڑے خان اپنے قصبہ جتوئی میں ایک ہسپتال بھی بنوا چکے تھے۔
اپنے علاقے سے محبت اور علاقے کے لوگوں کو آسانیاں فراہم کرنے کے حوالے سے کوڑے خان جتوئی باقاعدہ افسانوی کردار لگتا ہے۔ علی پور تا جتوئی سڑک، جتوئی تا شاہجمال اور چوک قریشی تک کی سڑک بھی سردار کوڑے خان نے اپنے پلے سے تعمیر کروائی۔۔ سردار کوڑا خان جتوئی نے اپنی وفات سے قبل 1894ء میں ایک وصیت نامہ لکھا اور اس کے اندر اپنی ایک تہائی زمین جو دو اضلاع میں پھیلی ہوئی تھی

ڈسٹرکٹ بورڈ مظفر گڑھ کے نام برائے رفاہ عامہ لگا دی۔ یہ 82753 کنال اراضی تھی۔ اس میں سے 84ہزار کنال مظفر گڑھ میں اور 1000 ہزار کنال راجن پور میں تھی۔ اس وقف شدہ زمین پر پہلے تو جتوئی سردار خود قابض رہے۔ پھر لیز کے نام پر لوٹ مار مچائی گئی اور سب نے جی بھر کر ہاتھ رنگے۔ کروڑوں روپے لیز والی یہ 415لاٹیں جو فی لاٹ 200کنال پر مشتمل تھی، ملی بھگت کے ذریعے عشروں تک سب نے ”انجمن امداد باہمی‘‘ بنا کر ہزاروں اور سینکڑوں روپوں میں لیز کروائیں۔۔
سردار کوڑے خان کو بھلا مظفر گڑھ سے باہر کوئی جانتا ہے؟ تراسی ہزار کنال کا وقف اور وہ بھی 1894ء میں۔ ایک جاگیردار نے اس پورے علاقے میں ایسا کام کیا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ہے تو یہ سر سید والا کام پر فرق صرف یہ ہے کہ سر سید نے علی گڑھ یونیورسٹی خود بنالی اور سردار کوڑے خان نے اپنی وسیع و عریض اراضی ہمارے حوالے کر کے حماقت کی۔ بے شمار وظائف اور مساجد اس سے چلتی رہیں۔ پورے مظفر گڑھ میں ایک ”سردار کوڑے خان سکول‘‘ باقی بچا تھا

اور سینکڑوں سال تک سردار کوڑے خان کی وقف کردہ اراضی سے مال پانی بنانے والی سرکاری انتظامیہ اب اس سکول کی پیشانی سے سردار کوڑے خان کا نام مٹا کر اسے ”ڈی پی ایس‘‘ یعنی ڈسٹرکٹ پبلک سکول بنانا چاہتی ہے۔ بغیر ذاتی پیسہ ٹکہ لگائے حکمران ہمارے پیسوں سے بننے والی یونیورسٹیوں کی پیشانی پر اپنا نام لکھواتے رہے ہیں

اور اربوں روپے کی اراضی اسی مقصد کے لیے وقف کرنے والے کا نام اب ایک سکول کے حوالے سے بھی ختم کرنے پر تلی ہیں۔ حکومت کو تو چاہیئے تھا کہ انکی جائیداد سے ہونے والی آمدنی سے تعلیم اور صحت کے میدان میں لگاتی۔ بلاشبہ سردار کوڑے خان جتوئی برصغیر پاک و ہند کے واحد شخصیت ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی تعلیم کے لیے سب سے زیادہ رقبہ وقف کیا جس کی مثال تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں