Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلے !

مسلمانوںکی تاریخ بڑی خوشگواربھی ہے ،المناک بھی،اس میں ایسے لو گ بھی ہیں جن کو انپوں نے ہی عبرت

غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلے !

اس ملک کی تاریخ کا افسوسناک پس منظر رہا ہے کہ یہاں پر سیاسی عدم استحکام اتنا زیادہ رہتا ہے کہ ہر حکومت کے حکمران اور معیشت ہما وقت بقا کی جنگ میں ہی رہتے ہیں ، اس سے آگے سوچنے کا کبھی ماحول ملتا ہے نہ ہی اندرونی اوربنیادی مسائل اجازت دیتے ہیں، حکومت کے ان دعووں سے ہر خاص وعام اختلاف کررہاہے کہ وہ بڑے مشکل فیصلے کر رہی ہے ،اس پراختلاف نہیں ہے کہ یہ فیصلے مشکل نہیں ہیں، بلکہ اختلاف اس وجہ سے ہے کہ یہ حکومت کے فیصلے نہیں،

بلکہ واحد بچی ہوئی آپشن ہے،حکومت کے فیصلے تب ہوتے ہیں کہ جب اختیار میں بھی کچھ ہو تا ہے، یہاں پر تو اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہے،اگر ہم اس دلدل سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہمیں عوام مخالف فیصلے کرنے کے بجائے عوام کے مفاد میں حقیقی فیصلے کرنا ہوں گے۔
اس میں شک نہیں کہ حکمران اتحاد بہت بڑے بڑے دعوئوں کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے ،مگر اپنے دس ماہ کے دور اقتدار میںشدید اقتصادی بدحالی کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی پچھتر رکنی کابینہ تشکیل دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا ہے

،اس کا بینہ کے اخراجات آسمان کو چھو رہے ہیں ،لیکن اسے کوئی پروا ہی نہیں ہے،وزیراعظم شہباز شریف باتیں تو بہت کرتے ہیں، مگر سادگی اور کفایت شعاری ان کی لغت میں شامل ہی نہیں ہے، ملک میںمہنگائی تو پی ٹی آئی دور حکومت میں بھی تھی ،لیکن موجودہ حکومت نے تو غریب کے منہ سے آخری نوالہ بھی چھین لیا ہے اور غریب عوام خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں،

جبکہ حکومت کی ساری توجہ عوام کے بجائے آئی ایم ایف کو راضی کرنے پر ہے ،آئی ایم ایف نے اپنی تمام شرائط منوانے کے باوجود ایک نئی پخ لگادی ہے کہ اس معاہدے پر پی ٹی آئی سے بھی دستخط کرائے جائیں، کیوں کہ اسے خدشہ ہے کہ پی ٹی آئی برسراقتدار آنے کے بعد اس معاہدے کو ماننے سے انکار کردے گی۔
حکمران اتحاد اور اس کی پشت پناہی کرنے والے دونوںہی پھنس کررہ گئے ہیں کہ پی ٹی آئی کو اب کیسے راضی کیا جائے ،تحریک انصاف کے ساتھ جو انتقامی رویہ روا رکھا جارہا ہے ،اس کے پیش نظر پی ٹی آئی کبھی تعاون کرنے کیلئے تیار نہیں ہو گی ،اس لیے سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے کہ حکومت کو رخصت کرکے ٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم کردی جائے یا پھر فوری انتخابات کرادیے جائیں،یہ بات بھی عام گردش میں ہے

کہ مقتدر حلقوں نے عمران خان کے سامنے چار شرائط رکھی ہیں، اگر وہ ان چاروں شرائط کو قبول کرتے ہیں تو فوری طور پر انتخابات کروادیئے جائیں گے، اس کا جواب تحریک انصاف قیادت نے بڑے مثبت انداز میں دیا ہے ،اب دیکھنا ہے کہ اس پر مقتدر حلقوں کا کیسا ردعمل آتا ہے، لیکن یہ سب افواہیں ہیں

اور کوئی نہیں جانتا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے؟یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف قیادت نے بہت جلد جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اس تحریک کا آغاز تحریک انصاف قیادت خود جیل میںجانے سے کریں گے یا صرف حکومت کے ساتھ مقتدر حلقوں پر دبائو بڑھاتے رہیں گے ،جبکہ دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ نے بھی تحریک انصاف کے 43 ارکان اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کرنیکا، الیکشن کمیشن کاحکم معطل کر تے ہوئے ضمنی الیکشن تاحکم ثانی روک دیاہے

،عدالت نے الیکشن کمیشن سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیاہے،اس کا الیکشن کمیشن کیا جواب دیتا ہے اور عدالت کا کیا فیصلہ آتا ہے ،یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ،تاہم ایک بات تو طے ہے کہ حکومت اپنے تمام تر حربوں کے باوجود دبائو میں آتی جارہی ہے ، حکومت کو دیر یا سویر جہاں پی ٹی آئی ارکان پارلیمان کو خوش آمدید کہنا پڑے گا ،وہیں عام انتخابات کی جانب بھی جانا ہی پڑے گا ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام کے بغیر معیشت ترقی نہیں کر سکتی ہے، لیکن اِس معاملے میں کسی غیر نے نہیں ، ہم نے اپنی مددآپ کے تحت خود ہی سب کچھ کرنا ہے،ملک میں سیاسی استحکام لانا ہے اور معیشت کو بھی بہتر بنانا ہے ،اس کیلئے ذاتی دشمنیوں کی بجائے سیاست کو سیاسی عمل تک محدود رکھنا ہو گا، قومی مفاد کی خاطر ذاتی مفاد اور انا کی قربانی دینا ہو گی، ماضی میںمسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے بھی سالوں کی شدید محاذ آرائی کے بعد میثاق جمہوریت کیا تھا،

گو کہ اس میثاق پر سو فیصد عمل نہ ہو سکا ،تاہم اْس کی روح سیاسی عمل میں کارفرما رہی اور اِسی کے نتیجے میں ان کی حکومتوں میں کوئی سیاسی قیدی تھا نہ بر وقت انتخابات میں کوئی دیر ہوئی تھی ،ایک پرامن انتقال ِ اقتدار کے ساتھ اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت بھی پوری کی تھی، اب ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ہے، کیا اب حکمران اتحاد اور تحریک انصاف قیادت سیاسی پختگی اوربڑے پن کا مظاہرہ نہیں کر سکتے ہیں؟موجودہ غیرمعمولی حالات سے نمٹنے کے لئے لیڈرشپ کو غیر معمولی فیصلے کرنا ہوںگے،بصورت دیگر اغیار کے فیصلوں کا خمیازہ سب ہی کو بھگتنا پڑے گا

Exit mobile version