89

بھیک مانگنے سے گھر و خاندان و ملک و وطن میں نحوست دلندری آجائی ہے

بھیک مانگنے سے گھر و خاندان و ملک و وطن میں نحوست دلندری آجائی ہے

نقاش نائطی
۔ +9665677707

بھیک مانگنے والا تونگر کروڑپتی مسلم پاکستانی خاندان اس ویڈیو کلپ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ معاشرے میں،صاحب حیثیت تونگر مشہور خاندان،کس طرح بھیک مانگنے کا پیشہ اپنائے ہوئے تھا۔ اپنے محل نما گھر کی زمین دوز منزل بیسمنٹ میں بھکاریوں کے میک آپ کرنے کا سامان اور میک آپ مین ماہر ملازم رکھے ہوئے تھے،بیسمنٹ سے بھکارئوں کے گیٹ آپ میں گاڑیوں سے نکلتے اور شہر کے مختلف حصوں میں بھیک مانگ کر اپنی دولت میں اضافہ کردیا کرتے تھے۔ یہ ایک ایسا خاندان نہیں بلکہ سنا ہے

نہ صرف پاکستان سمیت مسلم ممالک بلکہ ھندوؤں کی اکثریت والے ھندو اکثریتی ملک بھارت میں ایسے ہزاروں خاندان پائے جاتے ہیں جو بھیک مانگ کر عیش و عشرت والی زندگی گزارتے ہیں۔ عالم کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے گذشتہ آٹھ سالوں سے بھارت پر لاشرکت غیرے راج کرنے والے، بھارت کی تاریخ کے سب سے طاقتور ترین، ھندوؤں کے ویر سمرات مشہور،وزیر اعظم ھند شری نریندر دامودر داس مودی جی نے، فلم ایکٹر اکشے کمار کو دئیے انٹرویو میں،خود تسلیم کیا تھا کہ گھر سے بھاگ سنیاس لینے کے بعد، انہوں نے در در بھکشا یعنی بھیک مانگ کر ہی جوانی کے بیس تیس سال بتائے تھے۔

اور اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے ملک پاکستان کے اب کے ک زور ترین وزیر اعظم شہباز شریف ،جو خود کئی سو ہزار ارب روپئیے ملکیت والے شریف خاندان مقتدر وارثین میں سے ہیں،ملک و وطن کی معشیت سنبھالنے عرب ممالک جاکر بھیک مانگ کر، امداد لانے کے انکے عمل قبیح کو، “مجبوری ہی کی وجہ سے بھیک مانگنا پڑتا ہے”، بڑے ہی فخر سے کہا کرتے ہیں۔ جب کہ باکردار غیور حکمران اپنی رعایا کو بھیک مانگنے کے عمل سے روکنے کی تدابیر کرتے پائے جاتے ہیں۔
اپنے لٹ جانے کی وجہ پیسے پیسے کے محتاج ہونے یا جھوٹی ڈاکٹری شہادت و جھوٹے زخم دکھا عرب ممالک کے بازاروں مسجدوں میں یا سر راہ گزرتے صاحب حیثیت لوگوں سے علیک سلیک کر اپنا دھکڑا سنا بھیک مانگتے پائے خوش لباس تارک وطن اجنبی لوگوں میں،نوے فیصد سے زیادہ بھکاری پاکستانیوں کی پائی جاتی ہے۔ افسوس تو یہ دیکھ کر ہوتا ہے حرم شریف مکی و مسجد نبوی ﷺ میں تک شرفاء کی طرح نظر آنے والے پاکستانی مرد و نساء، اپنے جیب کٹ لٹ جانے کا دکھڑا روتے ہوئے،

حج و عمرہ پر آئے زائرین حرم یا ضیوف الرحمن تک کو ٹھگنے سے نہیں کتراتے ہیں۔ ابھی چند روز قبل دوران عمرہ مکہ المکرمہ جبل عمر کےپاس سیالکوٹ ہوٹل میں ہم کھانا کھاریے تھے، ہمارے کھانے کی ٹیبل کے پاس آکر انتہائی حسین معمر بارعب خواتین نے کھانے کے لئے بھیک طلب کی۔ ہم نے رقم دینے کے بجائے، انہیں اپنے پیسے سےکھانا منگوا ہمارے سامنے کھانے کے لئے کہا تو کہنے لگی ہم چار بہنیں ہیں لے جاکر کھائیں گے۔

کچھ سوچ ہم نے کہا کوئی مسئلہ نہیں چار بھی ہوں تو آجائیں ہمارے سامنے ہی کھانا کھائیں، تو اسی لمحہ باہر جاکر سب کو نہ صرف بلالیا بلکہ ہمارے سگے رشتہ داروں کی طرح بے جھجک خود سے ویٹر کو آرڈر دے پانچ عدد پلاؤ سالن منگوالئے۔ یقینا وہ تمام کی تمام معمر اچھے گھرانے کی خاندانی بارعب لگتی تھیں بلکہ دوران گفتگو انکے سیالکوٹی ہونے کا بھی پتہ چلا تھا اور یقینا وہ عمرے کئے ہی آئی ہوئی تھیں لیکن انکے لئے بھیک کا کھانا کوئی عیب والا عمل نہ تھا بلکہ انہوں نے تو موقع کا فائیدہ اٹھاتے ہوئے،

اپنے لئے الگ آلگ مرغن کھانے منگواتے ہوئے ہمیں مستعجب کیا تھا۔کچھ سال پہلے دوبئی تجارتی سفر دوران، اپنے خاندانی عزیزوں کے ساتھ ایک تجارتی مال جانا ہوا چونکہ ہم خوش لباس تھے دروازے سے اندر آتے ہوئے انتہائی گرم جوشیانا سلام نے ہمیں پلٹنے پر مجبور کیا، دیکھا تو دراز قد فربہ مایل ڈیل ڈول، انتہائی نفاست والے سفید کرتا پاجامہ پہنے، کسی پائے کے مولوی مولانا شیخ کی طرح بارعب صاحب ریش شخصیت نے انتہائی بے تکلفانہ گفتگو شروع کی کہ “کراچی کس علاقے سے ہو”،ہم نےکہا ہم ہندوستانی ہیں پھر انہوں نے بے تکلفانہ انداز اپنا تعارف کرتے ہوئے کہا “کراچی سے چالیس لوگ تبلیغی جماعت میں چالیس دن کے چلے کے لئے،دوبئی آئے ہوئے ہیں، فلاں مسجد میں فلحال قیام ہے۔

چلا ختم ہورہا ہے دو چار روز بعد پاکستان لوٹنا ہے کل مشورے میں طہ ہوا کہ واپسی پر سعودیہ عمرہ کرتے ہوئے پاکستان لوٹا جائے”، ہم ہمہ تن گوش انہیں سن رہے تھے۔ کچھ توقف کے بعد انہوں نے کہا “آپ صاحب حیثیت اپنے بھائی جیسے لگتے ہیں چونکہ چلے کے آخری ایام ذرا تنگدستی محسوس ہورہی ہے، اگر آپ ہم چالیس تبلیغیوں کے لئے احرام ہی دلوادیں تو ہماری عمرہ کی خواپش بھی پوری ہوجائیگی اور آپ ہمارے عمرہ اجر و ثواب کے شریک بنتے ہوئے، اپنی عاقبت بھی سنوار سکتے ہیں

۔ چونکہ ہمیں دال میں کچھ کالا ہی نہیں، پوری کی پوری دال ہی کالی نظر آرہی تھی اور ہمیں وہ اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں، بھیک کے ٹکڑوں پر عیش کرنے والے خاندانی لگ رہے تھے،لیکن انکے صوفیانہ ڈیل ڈول اور تبلیغ دین اسلام کو بدنام کرتے انکے عمل کریہہ سے دلی تکلیف پہنچی تھی اسلئے ہم نے متانت سے پوچھا کراچی سے دوبئی واپسی ٹکٹ کے ساتھ آئے ہوئے آپ کیسے جدہ سے کراچی جاسکتے ہیں؟

کہتے لگے ہم نے ٹکٹ ریشیڈول کروائے ہیں۔ ہم۔نے فورا” گرہ لگائی ٹکٹ تبدیل کروانے پر جب اتنا خرچ کرواسکتے ہیں تو عمرہ احرام کے دس بیس ریال بھیک کیوں مانگ رہے ہیں؟ انہوں نے اپنی صفائی میں انکے ساتھ مسجد تک چل کر تصدیق کرنے ہم سے درخواست کی۔ لیکن ہم نے، انہیں ایسے سفید پوش انداز جھوٹ مکر کا سہارا لئے، وہ بھی دین اسلام کی دعوت بدنام کرتے،ہدایات رسول ﷺ کے عین خلاف بھیک مانگتے،

ملک و وطن و دین اسلام کو بدنام کرتے انکے عمل کریہہ پر، کھری کھری سناتے ہوئے آگے بڑھنے ہی میں عافیت سمجھی اور وہ بزرگ نما مسلمان کسی اور شکارکو پھانسنے اس تجارتی مول کے صدر دروازے کی طرف چلا گیا۔ان دو ذاتی واقعات کو بیان کرنے کا مقصد اللہ گواہ ہے، وطن عزیز کو بدنام کرنا نہیں ہے بلکہ انتہائی درد سے یہ کہنے کی ہمت پارہے ہیں، کہ حرمین شریفین کے علاقوں میں، اور دین اسلام کی دعوت کو بدنام کرتے، ایسے خاندانی بھکاریوں ہی کی بدبختی کی وجہ سے، اسلام کے نام معرض وجود میں آنے والا مملکت اسلامیہ پاکستان بھی کشکول لئے عربوں کے در پر بھکاریوں کی صف میں کھڑا پایا جاتا ہے۔
بچپن سے ہم نے سنا تھا بھیک والی کمائی سے نہ صرف رزق میں برکت ختم ہوجاتی ہے بلکہ بھیک مانگنے والے کی نحوست سے، ان کے گھر خاندان و انکے ملک تک کی معشیت چرامراجاتی ہے،اور ان چند بھکاری خاندانوں کی نحوست سے لگتا ہے آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیر اعظم شہباز شریف بھی یہ کہتے تامل نہیں کرتا کہ بھیک تو ہم مانگنا نہیں چاہتے لیکن ہم بھیک مانگنے پر مجبور ہیں

فی زمانہ لوٹ مار لعنت زد سیاست سے عاری مملک پاکستان کو عالمی کرکٹ کپ سے، عالمی سطح پر افتخار دلوانے والے اور اپنے ذاتی علم وہنر سے موجودہ زمانے کی اعلی تعلیم یافتہ انگلش یونیورسٹی بریڈ فورڈ کا وائس چانسلر تک بن ملک و وطن کو افتخار دلوانے والےکرکٹ کپتان عمران خان نے، بغیر لوٹ مار کئے، کورونا سقم والے دور میں بھی، مملکت پاکستان کو معشیتی طور مضبوط بناتے ہوئے،

عالمی ترقی پزیری کے مدارج جس طرح سےعبور کئے تھے، اسی لئے عالمی یہود و ہنود و نصاری اسلام دشمن سازش کنندگان نے، چالیس سالہ پاکستانی معشیت کو گھن کی طرح کھا برباد کرنے والے دو خاندانی سیاست دانوں کو آگے کر، عمران خان کو اقتدار اعلی سے بے دخل کرتے ہوئے، اب تک کے سب سے خستہ حال معشیتی ڈگر پر ملک و وطن کو لا چھوڑا ہے، اسے عالمی معشیتی ترقی پزیری کی ڈگر پر واپس لانا ناممکن نہ صحیح مشکل تر ضرور لگتا ہے۔ لیکن عالمی حربی پس منظر میں، صاحب امریکہ کی بالادستی ختم کروانے کی تگ و دو چین و روس دوڑ میں، خصوصا” جوان سال عرب حکمرانوں کے دباؤ میں،ایسا لگتا ہے

عدلیہ و جمہوری اقدار ہی کی توسط سے عمران خان کے اقتدار اعلی تک واپسی کے امکان لگتے ہیں۔ایسے میں مستقبل کے وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے ہم مودبانہ درخواست کرتے ہیں کہ کسی بھی طریق قانون سازی سے، نہ صرف ان بھیک مانگ عیش کرنے والے خاندانی فقیروں کی نکیل کسی جائے، بلکہ بیرون ملک بھیک مانگ ملک و وطن کے وقار کوخاک میں ملاتے، ان نام نہاد پاکستانیوں کو کڑی سے کڑی سزا دلواتے ہوئے

، اللہ کے رسول ﷺ کے عملا کر دکھائے،فقیری کو ختم کر انہیں روزگار پر لگواتے ملک کو ایک نیا اور اچھوتا اقدار و افتخار عطا کرے ۔پاکستان ہی سے الگ ہوئے مغربی پاکستان کے، بنگلہ دیش بننے کے بعد، ہمہ وقت سیلابی ریلوں سے برباد و بے روزگار مفلوک ہوتے بنگلہ دیش کو،اپنے مائکرو فنناس بینکنگ سسٹم سے، قرضے دلوا، بھیک مانگنے والوں کو روزگار و تاجر بنا، ملک بنگلہ دیش کو معشیتی ترقی پزیری کی پٹری پر گامزن کرتے ہوئے

عالمی امن نوبل انعام حاصل کرنے والے یونس خان کی عملی زندگی سامنے رکھتے، مملکت پاکستان کو بھکاری مکت پاکستان بنانے کی گوہاڑ ہم عمران خان سے کرتے ہیں۔ ہمارے جن جن پاکستانی قاریوں تک ہمارا یہ پیغام پہنچے ان سے التماس ہے وہ اس اسلامی بھائی کے، اس پیغام کو، مستقبل کے وزیر اعظم پاکستان عمران خان تک پہنچائیں

بھیک مانگنے کی مذمت
١۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” جو شخص سوال سے بچے اللہ بھی اسے بچائے گا اور جو کوئی (دنیا سے) بے پروائی کرے گا۔ اللہ اسے بے پروا کر دے گا اور جو کوئی کوشش سے صبر کرے گا اللہ اسے صبر دے گا اور صبر سے بہتر اور کشادہ تر کسی کو کوئی نعمت نہیں ملی۔” (بخاری کتاب الزکوٰۃ، باب الاستعفاف عن المسئلہ)
٢۔ حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی رسی اٹھائے اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ جا کر کسی سے سوال کرے اور وہ اسے دے یا نہ دے۔” (بخاری۔ حوالہ ایضاً)٣۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : سوالی جو ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ باب من سال الناس تکثرا)
٤۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو منبر پر صدقہ اور سوال سے بچنے کے لیے خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے فرمایا ” اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر والے ہاتھ سے مراد خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب ما تجوز فیہ المسئلہ)
٥۔ حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرتا ہے وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے۔ اب چاہے تو وہ کم کرے یا زیادہ اکٹھے کر لے (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب النھی عن المسئلہ)
٦۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک انصاری نے آپ کے پاس آ کر سوال کیا۔ آپ ﷺ نے اسے پوچھا ” تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے؟” وہ کہنے لگا۔ ”ہاں ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ ہے۔” آپ ﷺ نے فرمایا : یہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ۔” وہ لے آیا تو آپ ﷺ نے ان کو ہاتھ میں لے کر فرمایا : کون ان دونوں چیزوں کو خریدتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا : ” میں ایک درہم میں لیتا ہوں۔”آپ ﷺ نے فرمایا : ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟

اور آپ ﷺ نے یہ بات دو تین بار دہرائی تو ایک آدمی کہنے لگا : ” میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں۔” آپ نے دو درہم لے کر وہ چیزیں اس آدمی کو دے دیں۔اب آپ ﷺ نے اس انصاری کو ایک درہم دے کر فرمایا : اس کا گھر والوں کے لیے کھانا خریدو اور دوسرے درہم سے کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ۔ جب وہ کلہاڑی لے آیا تو آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اس میں لکڑی کا دستہ ٹھونکا پھر اسے فرمایا : جاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر یہاں لا کر بیچا کرو اور پندرہ دن کے بعد میرے پاس آنا۔”
پندرہ دن میں اس شخص نے دس درہم کمائے۔ چند درہموں کا کپڑا خریدا اور چند کا کھانا اور آسودہ حال ہوگیا پندرہ دن بعد آپ نے فرمایا : یہ تیرے لیے اس چیز سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال کرنے کی وجہ سے تیرے چہرے پر برا نشان ہو۔” (نسائی کتاب الزکوٰۃ)
اب دیکھئے کہ جس شخص کے گھر کا اثاثہ ایک ٹاٹ اور پیالہ ہو کیا اس کے محتاج ہونے میں کچھ شک رہ جاتا ہے؟ لیکن چونکہ وہ معذور نہیں بلکہ قوی اور کمانے کے قابل تھا۔ لہذا آپ نے اسے کچھ دینے کے بجائے دوسری راہ تجویز فرمائی، پھر اسے عزت نفس کا سبق دے کر کسب حلال اور محنت کی عظمت و اہمیت بتلائی۔ جس سے وہ چند دنوں میں آسودہ حال ہو گیا، یہ تھا آپ کا انداز تربیت و تزکیہ نفس۔
٧۔ حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے جو مجھے یہ ضمانت دے کہ کبھی کسی سے سوال نہ کرے گا تو میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔” ثوبان کہتے ہیں کہ میں نے کہا : میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں” چنانچہ اس کے بعد انہوں نے کبھی کسی سے سوال نہ کیا۔ (نسائی، کتاب الزکوٰۃ، باب فضل
٨۔ عرفہ کے دن ایک شخص لوگوں سے مانگ رہا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سنا تو اسے کہنے لگے ” آج کے دن اور اس جگہ تو اللہ کے سوا دوسروں سے مانگتا ہے؟” پھر اسے درے سے پیٹا۔ (احمد بحوالہ مشکوٰۃ )
٩۔ حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں صدقہ کا مال تقسیم فرما رہے تھے دو آدمی آپﷺ کے پاس آئے اورآپ ﷺ سے صدقہ کا سوال کیا۔ وہ خود کہتے ہیں آپ نے نظر اٹھا کر ہمیں دیکھا، پھر نگاہ نیچی کی آپ ﷺ نے ہمیں قوی اور طاقتور دیکھ کر فرمایا : اگر تم چاہو تو تمہیں دے دیتا ہوں لیکن صدقہ کے مال میں مالدار اور قوی کا کوئی حصہ نہیں جو کما سکتا ہو۔” (ابو داؤد، نسائی، کتاب الزکوٰۃ)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں