انقلاب کب آئے گا !
یہ ملکی سیاست میں کیا ہو رہا ہے ،عوام انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں،جبکہ حکمران اتحاد مسلسل انتخاب کرانے سے انکاری ہے، عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کی مشاورت سے صوبہ پنجاب کی تاریخ صدر پاکستان نے دے دی، لیکن کے پی کے میں انتخابات کیلئے گورنر کے پی کے اور الیکشن کمیشن کے درمیان مشاورت کامیاب ہی نہیں ہوپارہی ہے،کیو نکہ گورنر کے پی کے کی سیاسی وابستگی حکمران پی ڈی ایم سے ہے، جو کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے باوجود انتخابات کرانے کے لیے تیار نہیں ہے، اس کشمکش میں ایسا ہی لگ رہا ہے کہ یہ معاملہ ایک بار پھر عدالت عظمیٰ میں ہی جائے گا ۔
یہ امر واضح ہے کہ عدالت عظمی کے فیصلے کے بعد عام تاثر تھا کہ انتخابات کے انعقاد میں کوئی روکاوٹ نہیں آئے گی ،مگر الیکشن کمیشن ،وفاقی حکومت اور گور نر کے پی کے مل کر انتخابات کے التوا میں کو شاں نظر آتے ہیں ، انتخابات سے راہ فرار کے لیے پنجاب کی نگراں حکومت، بھی وفاقی حکومت اور پی ڈی ایم جماعتوں کی مددگار بن رہی ہے، انتخابات سے قبل نگراں حکومت کے قیام کا فیصلہ اسی مقصد سے کیاجاتا ہے
کہ انتخابی عمل میں حکومتی طاقت کسی بھی فریق کو حاصل نہ ہو پائے،لیکن پنجاب کی نگراں حکومت نے اپنی غیر جانبداری کا نقاب اْتار پھینکا ہے ، اس کی علامت لاہور میں پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنان میں جھڑپ ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک شہری ہلاک ہونے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے۔
سیاسی قیادت نے اپنے ماضی سے کچھ سیاکھا ہے نہ ہی سیکھنے کیلئے تیار ہے،ایک بار پھر وہی پرانی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں ،حکمران اتحادی کی دو بڑی سیاسی جماعتیں بار ہا اقتدار میں رہی ہیں اور بار ہا اقتدار کھویا ہے ،لیکن ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے بعد سے انتقامی سیاست کی راہ پر گامزن ہیں ،ایک بار پھر وہی پرانے ہتھکنڈے آزمائے جارہے ہیں ،ایک بار پھر وہی غیر جمہورے رویئے استعمال کیے جارہے ہیں
،سیاسی مخالفین کے جلسے جلوس اور ریلیوں پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں ،ایک طرف سیاسی مخالفین کوبزور طاقت دبایا جارہا ہے تو دوسری جانب خود ساری سیاسی سر گرمیاں کرتے ہوئے برابری کاتقاضا بھی کیا جارہا ہے یہ حکمران اتحاد کا امتیازنہ روئیہ ان کے اپنے سیاسی اور جمہوری دعوئوں کی خود ہی تردید کررہا ہے۔
الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول جاری کردیا ہے،اس کا لازمی حصہ سیاسی سرگرمیاں ہیں، ہر سیاسی جماعت کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے خیالات کے اظہار اور سیاسی عمل میں حصہ لینے کی اجازت ہے ،حکمران اتھاد اپنے سیاسی مخالفین کی سیاسی سر گرمیاں بزور طاقت روکنے میں کو شاں ہیں ، طاقت کا استعمال ملک و ملت کے لیے کبھی مفید ثابت نہیں ہواہے ،اس کے باوجودہماری سیاسی تاریخ جبرواستبداد سے بھری ہوئی ہے، اگرحکمران اتحاد موقف رکھتے ہیں کہ اس وقت انتخابات کا انعقاد مناسب نہیں ہے
تو اس موقف کو تسلیم کرانے کے لیے سیاسی وقانونی اور آئینی طریقہ اختیار کرسکتے ہیں،لیکن اس کے برعکس زور زبردستی کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے، ہر سیاسی جماعت جب اقتدار میں ہوتی ہے تو اپنی بیان کردہ مصلحت بالجبر منواتی ہے، اس جرم میں پاکستان کی ہر جماعت شریک ہے، جو کہ اقتدار میں رہ چکی ہے،لیکن اس جرم کو جانتے بوجھتے بار بار دہرایا جارہا ہے۔ا س وقت ملک و ملت کو انتہائی خطرات درپیش ہیں، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے ، سیاسی قیادت کو محاذ آرائی کی سیاست چھوڑتے ہوئے
،پی ٹی آئی قیادت پہلے ہی حکمران اتحاد کی انتقامی سیاست کے باعث مقبول ہو رہی ہے ،اگر حکمران اتحاد ایسے ہی انتخابات سے بھاگتے ہوئے عوام مخالف فیصلے کرتے رہے تو عوام انہیں اپنی عدالت میں آنے کا موقع بھی نہیں دیں گے اورر اقتدار سے اُٹھا کر باہر پھنکیں گے۔عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو تا جارہا ہے، عوام آئے روز کے سیاسی کھیل تماشوں سے تنگ آچکے ہیں،عوام بار بار آزمائے ہوئوںسے چھٹکارہ اور حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں ، اگر عوام واقعی ایک حقیقی تبدیلی کے ساتھ نقلاب لانا چاہتے ہیں
تو پاکستان کے غریبوں اور مظلوموں کو متحد ہو کر اپنی آزاد ی اور آئین کی بالادستی کیلئے تحریک چلانا ہو گی، اس آئین میں کچھ خامیاں ضرور ہو ں گی ،لیکن اس آئین میں آج بھی اتنی طاقت ہے کہ اگر اس پر عمل درآمد ہو جائے تو ظلم اور ناانصافی کے بہت سے راستے روکے جاسکتے ہیں، اگر سیاست کے چور راستے بند کر دیئے جائیں
تو سیاست کاروبار نہیں رہے گی ،سیاست جب کاروبار نہیں رہے گی تو پھر سیاست سے سرمایہ دار اور تاجر بھاگنے لگیں گے، سیاست میں جب فتوے فروشوں اور انقلاب فروشوں کوبھی کچھ نہیں ملے گا تو ایک پرامن طریقے سے حقیقی انقلاب آئے گا،یہ بظاہر مشکل ضرورنظر آتا ہے ، لیکن اگر عوام باہر نکل آئے تونا ممکن نہیں ہے۔