استحکام کا راستہ کھولنا ہو گا !
ملک میں سیاسی و معاشی بحران کے ساتھ آئینی بحران بھی آچکا ہے،الیکشن کمیشن نے نوے دن کے اند ر انتخابات کروانے کا شیڈول واپس لے لیا ہے ،تحریک انصاف قیادت نے الیکشن کمیشن کے فٰیصلے کومسترد کر تے ہوئے اعلی عدلیہ سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے ،جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر ملک میں شفاف انتخابات کے انعقاد کے عمل میں بدنیتی کا مظاہرہ کیا گیا
تو عدالت مداخلت کرے گی، لیکشن کمیشن کے نئے فیصلے کے بعداب عدالت کیا کرتی ہے،اس کا اندازہ اگلے چند دنوں میں ہی ہو جائے گا۔اگر دیکھا جائے تو بظاہر حکومت کی سر پر ستی میں ایک آئینی ادارے نے آئین سے تجاوز کیاہے ،لیکن اس کا ہتمی فیصلہ تو اعلی عدلیہ ہی کرے گی ،تاہم حکومتی حلقوں کی طرف سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو نہ صرف آئینی ،بلکہ ایک بڑے سیاسی بحران سے بچنے کی کوشش بھی قرار دیا جارہا ہے
،جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں، اس فیصلے کے بعد بحران کم ہو نے کے بجائے مزید بڑھے گا،یہ بحران سیاسی اور آئینی بھی ہے، آئینی بحران کی نوعیت یہ ہے کہ آئین میں درج نوے دن کی مدت کو کیسے آگے لے جایا جا سکتا ہے، اگر ایک بار ایسی روایت پڑ گئی تو پھر آئندہ اسے کیسے روکا جا سکے گا،جبکہ یہاں معاملہ زیادہ گھمبیر ہے
کہ سپریم کورٹ بھی نوے دنوں میں انتخابات کا حکم دے چکی ہیّ ایک طرف آئین کی شق اور دوسری طرف سپریم کورٹ کا حکم ہے، اگر اس کے باوجود انتخابات آئینی مدت میں نہیں ہورہے ہیں تو مستقبل میںجہاں اپنی من مانی تشریح اور فیصلوں کا راستہ کھلے گا ، وہیں سیاسی انتشار بھی مزیداضافہ ہو گا ۔
حکمران اتحاد کااصل مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک برس سے یک بعد دیگرے بحرانوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور حکومت سارے ہی بحرانوں پر قابو پانے میں بالکل ناکام دکھائی دیتی ہے ،جبکہ سابق حکومتی سیاسی جماعت جو اسمبلی میں اپنی حمایت کھو بیٹھی تھی ،وہ اپنی معزولی کے بعد زیادہ مقبول ہوتی جارہی ہے، اس کی وجہ سے حکمران اتحاد ہر قسم کے اور ہر سطح کے انتخابات سے راہ فرار چاہتے ہیں،
حکمران اتحاد ایک طرف ہر صورت انتخابات سے گریزاں سارے حربے استعمال کررہے ہیں تو دوسری جانب تحریک انصاف کی سیاسی اور عوامی تحریک کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے ،اتحادی وہی کچھ کررہے ہیں جو اس سے قبل اپنے ادوار میں کرتے رہے ہیں ، اس سے سیاسی فائدے کے بجائے مزید نقصان کاہی اندیشہ ہے ،مگر حکمران اتحاد سمجھنے کیلئے تیار ہے نہ ہی ان کے پشت پناہی کرنے والے سمجھنے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔حکمران اتحاد کوخود ہی ہوش کے ناخن لینا ہوں گے
،حکمران اتحاد اپنے حصول میں مفاد میں اتنا آگے بڑھتے جارہے ہیں کہ واپسی کا راستہ بھی نظر سے اوجھل ہو نے لگا ہے ،حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ہی اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی ،سیاسی محاذ آرائی کے بجائے افہام و تفہم کی جانب بڑھنا ہو گا ،اس ضمن میںہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان اور وکلا ء و سول سوسائٹی نے کائوشیں شروع کر دی ہیں ،اس میں سیاسی فریقین کو بھی تعاون کرنا چاہئے اور بات چیت کے ذریعے الیکشن کی تاریخ کے تعین سمیت دیگر مسائل کا مشترکہ حل نکالنا چاہئے
،حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ اگر سیاسی عدم استحکا م ایسے ہی بڑھتا رہا تو معاشی بحران بھی مزید گہرا ہو تا جائے گا ،اس کا سار بوجھ انتخابات میں انہیں ہی اُٹھا نا پڑے گا ،حکمران جتنا مرضی الیکشن سے بھاگ لیں ،انہیں دیر یا سویر الیکشن تو کرانا ہی پڑیں گے ،الیکشن کا التو زیادہ دیر تک کیا جاسکتا ہے نہ ہی مقتدر ادارے کرنے دیں گے ۔
اس ملک کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے اپوزیشن قیادت کی پکڑ دھکڑاور انتقامی سیاست سے کبھی کوئی فائدہ ہو ا ہے نہ ہی اپوزیشن کو دبایا جاسکا ہے ،اس کا ہمیشہ فائدے کے بجائے نقصان ہی ہوا ہے ،اس طرح اپوزیشن کو بھی خیال کرنا چاہئے کہ اگر سیاسی کشیدگی سے اسے کچھ سیاسی فائدہ ہو بھی رہا ہے
تو اس سے زیادہ ملک کا نقصان ہو رہا ہے ،ملک کے مفاد میں ہر قربانی دینے کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں ،مگر عملی طور پر کوئی اپنی ضد و اَنا کی قر بانی دینے کیلئے تیار نہیں ہے ،حکمران اور اپوزیشن قیادت کو قومی مفاد میںاپنی انائوں کی قر بانی دینا ہو گی ،سیاسی مسائل کو سیاسی انداز میں ہی حل کر نا ہو گا
،ہر مسئلے پر اعلی عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانا درست نہیں ہے ،اپنے سیاسی مسائل کے حل کیلئے مل بیٹھ کرباچیت کا سلسلہ شروع کرنا ہو گا ،دونوں جانب سے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا ہو گا ،تاکہ ملک میں استحکام کا راستہ کھلے ،ورنہ اگر ایسے ہی سب کچھ چلتا رہا تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ،کوئی تیسرا ہی آگے بڑھتے ہوئے سب کچھ لے جائے گا اور یہ سب خالی ہاتھ ملتے ہی رہ جائیں گے۔