49

عوام کی شامت

عوام کی شامت

جمہور کی آواز
ایم سرورصدیقی

سیاسی افراتفری، معیشت کے عدم استحکام اور خوفناک مہنگائی کے ماحول میں 13جماعتی حکومتی اتحادPDM حکومت نے منی بجٹ میںٹیکسزلگاکر عوام کادھڑن تختہ کردیاہے جس پر واحد اپوزیشن جماعت تحریک ِ انصاف کے رہنمامسلسل لے دے کررہے ہیں حکومتی ارکان بڑی ڈھٹائی سے سینہ تان کر کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حالات میں اس سے بہتر کوئی آپشن نہیں تھا لیکن خدشہ ہے کہ ٹیکس وصولی کا ہدف پورانہ ہوسکا تو پھر عوام کی شامت آجائے گی یاحکومت IMFسے قرضہ لینے کے لئے ان کے مطالبات کے سامنے ڈھیرہوجائے گییاپھربجٹ کا خسارا اورٹیکس کا ہدف پورا کرنے کیلئے عوام پر سائٹیفک طریقے سے ٹیکس لگانے کیلئے نئی نئی سکیمیں تیار کی جائیں گی ریونیو اکٹھا کرنے کیلئے ہرحکومتبجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں اضافہ کرکے اس تیز بہدف نسخے کو بلا دریغ استعمال کرنے سے ذرا نہیں چوکتی ۔ حالات کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا

موجودہ حکومت کے دورمیںہوشربا مہنگائی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں خود وزیر ِ اعظم نے بھی تسلیم کیاہے کہ غربت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے مفت آٹا سکیم کی لمبی لمبی قطاروںنے بھٹو دورکی یادتازہ کردی جس کے نتیجہ میں نصف درجن سے زائدلوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ماِ صیام میں اشیائے خوردونوش اور فروٹ کے نرخوںمیں مسلسل اضافہ دیکھ کرلگتاہے پاکستان میں حکومت نام کی کوئی چیزنہیں ہے ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر،اسسٹنٹ کمشنراور افسروںکی فوج ظفرموج کے باوجود عوام کا کوئی پرسان ِ حال نہیںآخرانتظامیہ کسی مرض کی دواہے ۔ کوئی ہے اس سوال کا جواب ۔ کسی کے پاس؟؟؟

ایک دور تھا جب بجٹ پیش کیا جاتا تو سال بھر قیمتوںمیں استحکام رہتا انتظامیہ اور صوبائی و وفاقی حکومتیں سختی سے گراں فروشوں کے خلاف ایکشن لینا اپنا فرض مجھتی تھیں اب تو حکومت بجٹ کا تو تکلف ہی کرتی ہے ورنہ پتہ ہی نہیں چلتا کب بجٹ آیا کب گیا؟نئے مالی سال کا آغاہو،منی بجٹ یا معمول کے حالات گرانی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے حسب ِ معمول کہا جارہاہے کہ سب اچھا ہے عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا پاکستان کی ہر حکومت ہر سال غریب عوام کو خوش کرنے کیلئے ایسے ہی دعوے، ایسے ہی وعدے کرتی ہے ہمیشہ سیاسی افراتفری کے دوران قیامت خیز مہنگائی ہو جاتی ہے

پھر عام آدمی اس بوجھ تلے دب کرچوں بھی نہیں کر سکتا اس لحاظ سے حکومت عوام سے کئے گئے وعدوں میں سے ایک بھی وعدے پر پورے نہیں سکے گی۔ کچھ سیاستدانوں کو یقین ہے کہ منی بجٹ دستاویز آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن ہے اس سیعام آدمی کو ریلیف نہیں مل سکتا بجلی ، اور پٹرولیم مصنو عات کی قیمتیں جب بھی بڑھتی ہیں بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان آ جاتاہے یہی وجہ ہے کہ حکومت نے عوام کو افراط زر اور معاشی زوال کے چنگل میں پھنسا دیا ہے جب سے حکومت نے اداروں اور محکموںکو خود مختاربنایا ہے انہیں شتربے مہارآزادی مل کئی ہے ان کا بااثر لوگوںپر تو کوئی زور نہیں چلتا لیکن انہوںنے غریبوں کا جینا ضرورمشکل کردیا ہے وہ سارا سال مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے سروسز چارجز بڑھاتے رہتے ہیں مختلف حیلوں بہانوں سے عوام سے پیسے بٹورے جا تے ہیں

اور کوئی پوچھنے والا تک نہیں ،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور بجلی کے نرخ تو ایک ماہ میں دو دو بار بڑھا دیئے جاتے ہیں عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت ،بڑے بڑے سیاستدانوں حتی کہ اپوزیشن رہنمائوں نے بھی عوام کی طرف آنکھیں بند کرلی ہیں۔حکمران عوامی مسائل اور مشکلات سے لاتعلق ہو چکے ہیں ناقدین، اپوزیشن اور حکومت مخالف رہنمائوںکو سستی شہرت حاصل کرنے ، دل کا غبار نکالنے یا بیان بازی کا ایک بہانہ میسر آ جاتاہے ایک مینی بجٹ ک پرہی موقوف نہیں ہرروز چیزوںکے نئے ریٹ عوام کا منہ چڑارہے ہوتے ہیں بنیادی طورپراس کی ذمہ دار حکومت ہے جس کی کسی بھی معاملہ پر گرپ نہیںہے گراںفروش حکومتی رٹ کیلئے چیلنج بن گئے ہیں ایک اور بات قابل غور ہے کہ جب سے حکومت نے ہر ماہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقررکرنے کی نئی حکمت ِ عملی وضح کی ہے

ہر مہینے مہنگائی کی نئی لہر جنم لیتی ہے اوراس کی آڑ میں گراں فروشوںکو چیزیں مہنگی کرنے سے کون روک سکتاہے؟ روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی مہنگائی اور پے در پے منی بجٹ سے گھر گھر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں ان حالات میں حکومت کی طفل تسلیاں کہ عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا دعوے کو حقیقت بنانے کیلئے کچھ نا گزیر اقدامات کرنا پڑتے ہیں کچھ بے رحم فیصلے بھی۔ اس کیلئے ماحول کو سازگار بنانا بھی حکومتی ذمہ داری ہے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والی پالیسی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی بجٹ کی اہمیت اور افادیت تواس صورت ہی ممکن ہے کہ حکومت بالخصوص کھانے پینے اشیائ،ہر قسم کی یوٹیلٹی سروسز،ادویات کی قیمتیں الغرض ہر چیز کے نرخوں کا تعین ایک سال کیلئے مقرر کرے،کسی ادارے، محکمے یا نیشنل،ملٹی نیشنل کمپنی کو ایک سال سے پہلے قیمت بڑھانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے اس پر سختی سے عمل کروایا جائے

تو نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہونے میں مدد ملے گی بلکہ غریب عوام بھی سکھ کا سانس لے گی ورنہ اس سے بہتر یہ ہے کہ حکومت ہر سال بجٹ پیش کرنے کا تکلف ہی نہ کرے تو وزیر ِ خرانہ کئی کڑوے کسیلے سوالات سے بچ سکتے ہیں وزیر خزانہ اور وزیر ِ اعظم کے دعوے اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری کے سوا کچھ نہیں حالانکہ غریبوںکی فلاح کیلئے حقیقی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ایک بات ہم کہے بغیر نہیں رہ سکتے ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور ٹیکس چوری کا خاتمہ کئے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں لیکن ا گرسال بھر پھر کوئی منی بجٹ نہ لایا جائے تو مسائل کے مارے لوگخوشی سے نہال ہو جائیں گے وگرنہ سارا سال عوام کی شامت آئی رہتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں