کیا ہم داعی دین اسلام کی اپنی ذمہ داری پر پورا اتر رہے ہیں
نقاش نائطی
۔ +966562677707
رمضان کے روزے اور اس کے دنیوی طبی افادئیت جدت پسند دنیا کی عام سی بنائی کوئی چیز بھی، وقت وقت سے، اسے دیکھ بھال نہ کی جائے،اور اسکی صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھا جائے تو کوئی کوئی کمی خامی اس میں عود کر آتے ہوئے، وہ چیز ناقابل استعمال ہوجاتی ہے۔ چہ جائے کہ ہمارا انسانی جسم جو دنیا کی، اب تک کی پیچئدہ ترین مشین سے بھی زیادہ پیچیدہ تصور کی جاتی ہے۔ یہ دس مختلف اقسام کے جدا جدا نظام حیات، سسٹم کے علاوہ، ایک دوسرے کی مدد کرتی (سپورٹ انڈسٹری)، مغز، دل،گردہ، تلی، جگر، فوتے، پھیپڑے، کھال جیسی 78 چھوٹی فیکٹریوں پر مشتمل 5۔6 لیٹر خون کا اندرون جسم مختلف نالیوں سے 12ہزار کلومیٹر کا سفر کرتا پیچیدہ ترین آب حیات یعنی خون ترسیل کرتا نظام، کیا انسانی جسم نظامت مرمت یا اؤؤر وھائیلنگ کے بغیر چلنا ممکن بھی ہے؟کیا حضرت انسان نے اس پر کبھی تدبر و تفکر بھی کیا ہے؟
لیکن قدرت نے، اس کے خود کار، نظامت مرمت کا انتظام کرنے کے لئے ہی، اپنے نبیوں رسولوں کے ذریعہ، اس انسانی نظام ہضم فیکٹریوں کے مجموعے کو، جدت پسند اصطلاح میں، صنعتی “شیڈڈاؤن” قرار دئیے جیسا، وقت وقت سے لمبے وقفہ کے لئے، بھوکے رہنے یا روزے رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ ہر آسمانی مذہبی قوم میں، چاہے وہ یہود و نصاری ہوں یا مشرکین ھنود، ان میں ہر درمیانی مہینے کی تاریخوں میں یا کسی اور مذہبی تقریب خاص موقع پر، روزے رکھنے کا حکم ہم پاتے ہیں۔ یہود و نصاری و مسلمین کے روزے کم و بیش مشترک ہیں۔لیکن ہزاروں سال قبل کے آل آدم و آدم ثانی حضرت نوح علیہ السلام کی قوم متصور، مختلف آسمانی صہوف اولی یا زبر الاولین کے مماثل، آسمانی وید پرانوں والے سناتن دھرم میں بھی، جو برت رکھے گئے ہیں وہ بھی تو آسمانی حکم مطابق روزے ہی تو ہیں، جو زمانے کے گرداب میں، کچھ کھانے پینے کی چھوٹ کے ساتھ،ہزاروں سال بعد بھی، ہزاروں لاکھوں کی تعداد مرد و نساء سناتن دھرمی مشرکین ھنود ،بڑی شردھا آستھا ایمان و یقین کے ساتھ روزے رکھتے ہم انہیں پاتے ہیں
یہ اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمیں سابقہ آسمانی اقوام ہی کی طرح، نہ صرف اپنے پیچئدہ ترین پورے جسم کی اؤؤر وھائینلگ یا صنعتی شیڈ ڈاؤن کے طرز، اپنے بدن کی اندرونی کمیوں خامیوں کو خود کار انداز مرمت پانے کے لئے، ایک پورے مہینے کے روزے رکھنا ہم مسلمانوں کو فرض قرار دیا ہے بلکہ ہر مہینے کی 14 سے 16 قمری تاریخ تین دنوں میں دو روزے ہر مہینہ اورپیر و جمعرات کے ہفتے کے دو سنت روزے رکھتے ہوئے،اپنے جسمانی نظام ہاضمہ کو تندرست رکھتے، انیک اقسام کے اسقام سے بچاؤ کی تدبیریں بھی سجھائی ہیں۔ عالم کے تمام سائیس دان، اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹر حضرات، ہم مسلمانوں کے روزوں کی شکل دن بھر بھوکے رہنے کے عمل کو طبی نقطہ نظر سے، مسلمانوں پر رب کی مہربانی؛،عطیہ یا وردان مانتے ہیں۔ابھی حال ہی کے کچھ برسوں میں، جاپانی سائینسدان نے، اسلامی روزوں کی شکل تیس دنوں مسلسل بھوکے رہتے عمل کو، خود کار طریقے سے انسانی جسم میں پیدا ہوتے کینسر کے خلیوں کے سد باب کا ذریعہ بتایاہے۔ یہ ہم ناسمجھ کم عقل انسان، ایسے روزے رکھے نظام ہاضمہ کچھ راحت دیتے لمحات میں بھی، باقی ایام سے زیادہ مرغن اور تلی ہوئی مضر صحت آشیاء و اغذیہ رمضان المبارک میں، نہ صرف تناول کئے، بلکہ زبردستی اپنے جسم میں ٹھونستے ہوئے، اپنے نظام ہضم سسٹم کو اضافی کام، اؤؤر ٹائم کرنے پر مجبور کررہے ہوتے ہیں
فی زمانہ سب سے کم عمر 1444 سالہ آسمانی مذہب اسلام کے ماننے والوں نے، شیطان رجیم کے بہکاوے میں آتے ہوئے، اپنے ‘علم سؤ’ ہی کے نشے میں، ترقی پزیری یاکہ اجتہاد پسندی کے بہانے، رافضیت و مشرکئیت والے شرک و بدعات اپنے میں سمیٹے، اہل سنہ و الجماعہ کے نام نامی ہی سے، بریلوئیت مذہب کو فروغ دئیے رافضیت والے شرکیہ اعمال ہی کو اپنی زنگیوں کا حصہ بنائے جی رہے ہیں۔ تو سوچا جائے آل آدم یا آل نوح علیہ السلام پر ہزاروں لاکھوں سال کی گرداب بعد، ان میں کتنی خرابیاں خامیاں عود کر آئی ہونگی؟ لیکن ایک چیز کو جو ہمیں ماننا چاہئیے کہ ہزاروں لاکھوں سال کی گرداب باوجود، سناتن دھرمی مشرکوں میں، ہزاروں دیوی دیوتاؤں کی پوجاپاٹ خرابی باوجود، ان میں اپنے بھگوان ایشور کے تئیں جو عقیدت و آستھا ہے
، وہ ہمارے ایمان سے کیا کم ہے؟ جب ہم نام نہاد مسلمانوں نے، اپنے اس ڈیڑھ ہزار سالہ سفر کی ابتداء میں ہی، اہل علم کے غلط تفکر و اجتہاد سے، قرآن کریم میں عرش معلی پر مستوی یا براجمان قرار دئیے رب رحمان کو ، جتنے کنکر اتنے شنکر والے کفریہ عقیدےوحدة الوجود ہی کے نام سے، اپنے میں سمو لیا ہے۔ کیا آج کے اس منافرتی دور میں بھی لاکھوں کی تعداد میں ایسے سناتن دھرمی مشرکین کو ہم نہیں پاتے ہیں، جو علی الإعلان بتوں کی پوجا پاٹ کو سناتن دھرمی عقیدے کے منافی مانتے ہیں؟ حج الوداع کے موقع پر، پوری دنیا میں پھیلتے ہوئے، دین اسلام کو عالم کے کفار و مشرکین تک پہنچانے کی جو ذمہ داری خاتم الانبیاء سرور کونئین محمد مصطفی ﷺ نے، ہم مسلمانوں پر ڈالی تھی، کیا ہم بھارت کے 30 کروڑ مسلمان، اس دعوت دین اسلام الی الکفار کی اپنی ذمہ داری پر پورے اترتے رہے ہیں؟ اگر بھارت پر اپنے 800 سالہ مسلم حکمرانی ہی میں، دعوت دین الی الکفار کے مابین، دین اسلام کی دعوت کما حقہ دئیے ہوتے اور بعد آزادی ھند کے ان پچھتر سالوں میں، اپنے حقوق العباد والے،دینی اقدار، اخلاق وایمان داری، امانت داری وعدہ وفائی ہی سے، ان مشرکین ھند کے قلوب نرم کئے ہوٹے، تو یقیناً فی زمانہ بھارت میں پائے جانے والی، اس مذہبی منافرت کو جھیل نہیں رہے ہوتے۔
آج کےہم نام نہاد مسلمان دنیا جہاں کی تمام تر خرابیوں کو اپنے میں سمیٹے، اپنے مسلکی اختلافات پر شدت سے ایک دوسرے پر تکفیری فقرے کستے، ایک دوسرے کواپنےسے کمتر سمجھتے، شب کہ تاریکیوں میں، بے کار وقت گزاری کئے، دن ڈھلے تک خواب غفلت سوتے رہنے والے ہم مسلمان،صبح رب دوجہاں کی طرف سے، آسمان کی نچلی سطح تک اتر آ، رزق تقسیم کرتے فرشتوں سے، اپنےاور اپنی آل اولاد کے لئے، عزت و احترام والی رزق حاصل کررہے ہوتے۔ لیکن آج کے ہم مسلمان محنت مزدوری سے عزت والی رزق حلال کے بجائے، اسمگلنگ اڑان، جیسے غیر قانونی، غیر شرعی دھندوں ہی سے، آسان دولت سمیٹتے، نقلی مال کو اصل مال بتا اور جتا ڈنڈی مار تجارت سے دولت سمیٹنے والے کیا نہیں رہ گئے ہیں؟ چونکہ ہماری اپنی کمائی جائز ہونےکا شک ہمیشہ ہمیں رہتا ہے، اسی لئے مساجد مدارس میں دل کھول کر چندہ دیتے،معاشرے کے علماء دین سے قربت بڑھائے، معاشرتی اہم عہدوں پر قبضہ جمائے، ہر رمضان میں نفل فائیو اسٹار عمرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں
کاش کہ آج کے ہم مسلمان بعد نبوت والی صلاة، رفع یدین یا آمین بالجہر پر اختلاف کرنے کے بجائے، ماقبل نبوت والے 40 لمبے سال تک کفر و شرک لوٹ مار والے عرب معاشرے میں، حق گوئی، دین داری دیانت داری وعدہ وفائی، چھوٹوں سے شفقت تو بڑوں کی عزت، ایک دوسرے کی مدد کے جذبہ والی عملی زندگانی جئے، کفار و مشرکین کے دلوں میں آمین و صادق کا لقب پانے والے نبی آخر الزماں محمد مصطفی ﷺ کے اعمال صالحہ کو اپنی زندگیوں میں عملاً پیوست کئے، چلتے پھرتے سفیر دین اسلام بنے، اپنے اطراف بسنے والے کفار و مشرکین کے دلوں میں عزت واحترام پیدا کئے، اپنی عملی زندگی سے دعوت دین اسلام، کفار و مشرکین کو دے رہے ہوتے۔ آج تو ہم مسلمانوں کی تجارتی ایمان داری ، دیانت داری، کا یہ حال ہے، 90 فئصد سے زیادہ مسلم اکثریتی بنگلہ دیش میں، کچھ فیصد رہ رہے ھندو بنئے، گھر میں بنے دودھ ملائی سے بنائے اصلی گھی کوبیچتے ہوئے، مسلمان گراہک ضمناً گر یہ پوچھ بیٹھے کہ کیا گھی اصلی بھی ہے؟ تو “ہم میاں جی نہیں ہیں” متوقع سوال کا طنزیہ جواب دیتے ہوئے،بنیہ بڑے ہی فاتحانہ انداز، میاں جی کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ مسلم علاقوں کی غلاظت، کچرے کے ڈھیر، گڈھے پڑے رستے، و ہر سو اٹھتا شور و غوغہ دیکھ، کسی کو بتانےکی ضرورت نہیں پڑتی کہ یہ میاں بھائی کا علاقہ ہے
کاش کہ آج اس گئے گزرے دور میں بھی، ساٹھ ستر سالہ دنیوی زندگی بعد، ہزاروں سالہ قبر و برزخ والی لمبی زندگانی و بعد محشر لامتناہی زندگی پر، یقین کامل رکھنے والے ہم مسلمان ، ماقبل رسالت آپ ﷺ کے عمل کر دکھائے اعمال صالحہ کو ہی،اپنی زندگیوں میں واپس لانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو، یقین جانئے ہماری دنیوی و اخروی زندگی بھی نہ صرف کامیاب گزرے ہم۔پاتے بلکہ ہمارے اعمال صالحہ کو دیکھ، ہم سے متاثر ہو، دین اسلام کی طرف راغب ہو، مشرف اسلام ہونے والے کفار و مشرکین، بعد الموت جنت کے اعلی سے اعلی مقامات کو اپنے لئے محجوز کرتے ہماری مدد و نصرت کرتے ہم پائیں گے وما علینا الا البلاغ