54

خود بھی کھایئے یہ ہائی جینک آٹا

خود بھی کھایئے یہ ہائی جینک آٹا

تحریر:ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile:03344954919
Mail: [email protected]

جیسا کہ ہمارا دین ہمیں حکم دیتا ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کو وہ لباس دو جیسا کہ خود پہننا پسند کرتے ہو ،کھانے میں وہ چیز کھانے کو دو جو تمہیں مرغوب ہے یا جسے خود بھی کھا سکو مگر ہمارے ہاں اس بات کا معیار دین نہیں بلکہ اسٹیٹس ہے ۔آج کل پاکستان بھر میں حکومت کی فیاضی کا دریا ٹھاٹھیں مار رہا ہے حاکم وقت عوام الناس کو مفت آٹا تقسیم کر رہے ہیں جو اتنا زیادہ حفظان کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر دیا جارہا ہے

کہ انسان تو کجا اسکو جانور بھی منہ لگانے سے گریزاں نظر آرہے ہیں وہ مٹی اور چوکر کے اضافی وٹامن سے مزین ہے ۔یہ آٹا لینے کے لئے بھی عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر سمندر کی لہروں ہی کے مصداق آپس میں ٹکرا رہا ہے جس کی بھینٹ اب تک پندرہ کے قریب لوگ چڑھ کر داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں یعنی میں ایسے لوگوں کو شہید جہاد آٹا ہی کہہ سکتا ہوں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عوام کے اس سمندر میں جب عوامی لہریں منتشر ہوتی ہیں تو پولیس کی موج طغیانی کی لاٹھیاں چلا کر ان بپھری ہوئی عوامی لہروں کو کنٹرول کرنے میں اپنا ہلاکوئی کردار ادا کرتی ہے پھر ان کی لاٹھیوں کی زد میں آکر یا عوامی لہریں آپس ہی میں ٹکرا کر چند ہی ثانیوں میں مرغ بسمل کی طرح زمین پر پڑی کراہتی ہوئی نظر آتی ہیں

اور انہی لاٹھیوں،دھکم پیل اور تذلیل انسانی کی زد میں آکر اب تک پندرہ کے قریب لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیںجو گھر سے اپنے اہل خانہ کے لئے چند لقموں کے لئے آٹے کی خیرات لینے آئے تھے وہ حکمرانوں کی بدولت نا صرف آٹے کی خیرات کے حصول بلکہ زندگی جیسی کٹھن اذیت سے نجات بھی پاگئے ہیں کیا کہنے آپکی فیاضی کے اے حاکمان وطن ! کہتے ہیں کہ اسلام میں حاکم اور عوام کے حقوق مساوی ہیں تو پھر جو ملک اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا وہاں یہ مساوات دیکھنے کو کیوں نہیں مل رہی

۔میرے دیس میں صبح سے لیکر شام تک لاکھوں مادران قوم ،دختران قوم اور ہمشیرگان قوم بے بسی کی تصویریں بنی ہاتھ میں اپنے قومی شناختی کارڈ تھامے آٹے کے لئے جہاں قطاروں میں کھڑی نظر آتی ہیں اگر حقوق مساوی ہیں تو پھر ان قطاروں میں مجھے کیوں مریم نواز ،بختاور زرداری آصفہ زرداری،بشری بی بی ،ڈاکٹر یاسمین راشد ،زرتاج گل ،ماہ نور صفدر اور مریم اورنگزیب کھڑی دیکھائی کیوں نہیں دیتیں؟ چاہیئے تو یہی تھا کہ ہر پاکستانی ماں بہن بیٹی جس طرح پولیس کی جھڑکیوں کے بونس کیساتھ آٹا لے رہی ہیں

اسی طرح درج بالا خواتین بھی کھڑی ہوکر آٹا وصول کرتی ہوئی پائی جاتیں ،جس لائن میں قوم کے بوڑھے بچے اور جوان آٹے کے لئے کھڑے ہیں انہی لائنوں میں شہباز شریف ،عمران خان ،آصف زرداری ،بلاول زرداری،حمزہ شہباز ،خواجگان آصف و سعد رفیق،راجہ پرویز اشرف ،صوبائی حکومتوں کے وزرائے اعلیٰ ،سینٹ کے اراکین،چاروں گورنرز،بیوروکریسی ،پولیس حکام اور ان کی فیملیاں کیوں ان لائنوں سے گریزاں ہیں ؟ یا پھر صاف کہہ دیا جائے کہ اس ملک کی اشرافیہ ہی صرف انسان ہے عوام تو فقط حشرات الارض ہیں یہ تو پیدا ہی روندے جانے کے لئے ہوئے ہیں ۔میں دعوے سے کہتا ہوں بلکہ دعوت دیتا ہوں

کہ جس معیار کا مفت آٹا پاکستانی عوام کو دیا جارہا ہے اسی آٹے سے تیار کردہ کھانا وزیر اعظم انکی کابینہ ،ممبران قومی و صوبائی اسمبلیاں ،تمام گورنرز،اور سارے ملک کی بیورو کریسی بھی کھائے یہ عجیب بات نہیں کہ سارے ویہلڑ سپر ہائی جینک خوراک کھائیں جو چھ چھ مرتبہ چیک ہو اور ساری قوم جو ان بھیک منگوں کو اپنے ووٹوں سے ایوان تک پہنچائے وہ جانوروں سے بدتر کھائے ! واہ میرے وطن کے عنان حکومت کو چلانے والے اقتداریو واہ تمہیں خدا ہی پوچھے گا ۔قوم کی مائیں بہنیں بیٹیاں جھڑکیاں کھائیں تمہاری بلا سے ،قوم کی مائیں پاؤں تلے روندی جائیں تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا

،قوم کی بیٹیوں کو دھکے مارے جائیں تمہیں کیا ،کیونکہ اس ملک میں قوم نام ہی آپ لوگوں کا ہے اور فقط آپ کی بیٹیاں ہی قوم کی بیٹیاں ہیں باقی ہم سب پاکستانی یا تو بھیڑ بکریاں ہیں یا پھر زمین پر رینگنے والے کیڑے یہ ہجوم قوم تھوڑی ہے ! آو آج حلفاً ایک بات کرتے ہیں اگر آپ سب سیاسی ٹولہ،بیوروکریسی اور افسر شاہی خود کو پاکستانی سمجھتے ہو تو اپنے لئے ویسی ہی خوراک چنو جو تم قوم کو قوم کے پیسے سے ہی جانوروں کا ونڈا بانٹ رہے ہو یہ ونڈا آپ بھی کھاؤ یا پھر جیسا معیار آپکے کھانے والے آٹے کا ہے

اسی معیار کا اس عوام کو بھی دو یہ وہی عوام ہے جو خود دو وقت کی روٹی کے لئے ماری ماری پھرتی ہے دھکے کھاتی ہے مگر اس ملک کو ٹیس کی صورت میں یہی عوام پیسہ دیتی ہے دو روپے کی ٹافی سے لیکر تمام اشیاء ضروریہ جب خریدتی ہے اس پر ٹیکس ادا کرتی ہے بجلی گیس کے بھاری بل بھرتے وقت بھی ساتھ ٹیکس دیتی ہے آپ لوگ کوئی آسمانی مخلوق ہو کہ پٹرول مفت ،بجلی گیس ٹیلی فون مفت ،کھانا مفت ،اندرون و بیرون ملک جانا آنا مفت تمہیں یہ مفت کی آسائشیں اسی قوم کے صدقے میں مل رہی ہیں

نام نہاد اشرافیہ ۔کہو ذرا اپنے ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہوکر کہ کیا یہی مٹی اور چوکر ملا آٹا کھا سکتے ہو ؟ یقیناً جواب نفی میں ہوگا ۔یاد رکھو روز حساب اس بابت بھی پوچھا جائے گا اور اس عدالت کو خریدا نہیں جاسکتا ،وہاں عبوری ضمانتیں نہیں ملتیں ،وہاں پچاس روپے والے اشٹام پیپر پر بھاگ جانے کا پروانہ نہیں ملے گا ،وہاں حکومت رب ذوالجلال کی ہے آپکی نہیں کہ کیس ختم ہو جائیں گے بلکہ عدل ہوگا اور سزا بھی ہوگی
خدارا سدھر جاؤ عوام کو بھی انسان سمجھو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں