51

یاد ماضی عذاب ہے

یاد ماضی عذاب ہے

آج کی بات۔شاہ باباحبیبب عارف کیساتھ

ماضی کا وزیراعظم اپوزیشن سے مذاکرات تو دور کی بات ملنے کا رواداربھی نہیں تھا ۔ چور چور کے الزام کے علاوہ اور کوئی بات ہی نہیں ہوتی تھی ۔ مگر آج وہی سابق وزیراعظم قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اسد قیصر ، پرویز خٹک ، اسد عمر اور فواد چوہدری اور کچھ نامعلوم دوستوں کی توسط سے ماضی کے چوروں اور آج کے حکمرانوں کو مذاکرات کے پیغامات ارسال کررہا ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی ڈیڈ لاک عدم اعتماد کا فقدان ہے

جب اب تقریبا ختم ہو نے کو ہے ۔ یہ ڈیڈلاک ضمانتی کے حوالے سے ہے۔ تحریک انصاف کی خواہش ہے ، کہ اسٹیبلشمنٹ ان مذاکرات میں ضامن کا کردار ادا کرے ۔ جبکہ اسٹییبلشمنٹ نے کسی قسم کے کردار ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہے غیرمصدقہ ذرائع کے مطابق اب وہ مبصر کی حیثیت سے اس عمل میں شامل ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ چاہتی ہے کہ اس بات کی ضمانت دی جائے کہ جوبات طے ہوگی عمران خان اسے تسلیم کرے گا کیونکہ ماضی میں کامیاب ہونے والے مذاکرات اس لئے ناکام رہے

کہ عمران خان نے ان کو ماننے سے انکار کیا تھا ، اس کے باوجود موجودہ مذاکرات کے عمل کو یہاں تک پہنچانے میں مشترکہ دوستوں نے کردار ادا کیا ہے ۔ تاہم اب بھی مشترکہ دوستوں کے ذریعے بات چیت پر دونوں اطراف میں اعتماد کا فقدان موجود ہے۔اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اس عدم اعتماد کے فقدان کو ختم کرنے کے لئے میدان میں عملی طورپر قدم رکھ چکے ہیں جس کے بعد عین ممکن ہے

کہ بات تیزی سے آگے بڑھے ۔جس کا انحصار اس بات پر ہے، کہ تحریک انصاف پہل کرتے ہوئے اپنے مذاکراتی وفد کو شہبازشریف کے پاس بھیج کر غیر مشروط مذاکرات کی دعوت دے۔ تحریک انصاف کی جانب سے مذاکرات کا عمل آگے بڑھانے کے لئے جو سلسلہ شروع ہوا ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ تحریک انصاف کے اندر بعاوت ہے ۔ کیونکہ اس جماعت میں شامل الیکٹیبلز نے عمران خان کو اسمبلیاں تحلیل نہ کرنے اور قومی اسمبلی سے استعفے نے دینے کا مشورہ دیا تھا ۔ مگر عمران خان نے ان کے مشورے کو اہمیت نہیں دی۔ جس کے بعد اب تحریک انصاف کے پاس کوئی محفوظ مورچہ نہیں ہے

اس وقت ملک انتہائی بحرانوں سے دوچار ہے ۔ جس کا تقاضہ بھی مذاکرات ہیں ۔ لہذا حکومت اور اپوزیشن دونوں کو کم از کم شرائط پر مذاکرات کرنے کے لئے پیش کریں۔ اس سلسلے میں تحریک انصاف کو اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے دستبردار ہونا ہوگا ۔ کیونکہ بقول تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی وجہ سے ان کی حکومت گئی ۔ اب ان کو پھر اس کھیل میں شامل کرنے کا مطلب یہ ہوگا

کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو کردار دینے کے حق میں ہے ۔ اس سلسلے میں جہاں آصف علی زرداری اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں حکومت اور اپوزیشن کو چاہیئے ۔کہ وہ مولانا فضل الرحمن اسفندیار ولی خان سردار اختر جان مینگل ، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، محمود خان اچکزئی ، سمیت دیگر اہم سیاسی شخصیات کو بھی اس عمل میں شامل کریں ۔ کیونکہ ان کے بغیر خاطر خواہ نتائج کی توقع کم ہی کی جاسکتی ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں