ہم کب بدلیں گے!
ملک میںآئین پا کستان کی گولڈن جو بلی منائی جارہی ہے ،اس موقع پر آئین کی بالادستی کی باتیںبھی بہت کی جارہی ہیں، لیکن زبانی کلامی باتیں کرنے والوں کا عملی رویہ آئین کے منافی ہے، آئین میں سب کا اپنا کرادار اور حدود متعین ہے ،مگر سب ہی اپنے دائرے میں نہیں رہتے ہیں، اس پر کوئی سچائی بیان کرنے کیلئے تیار ہے نہ اس سچائی کا سامنا کررہا ہے ،یہ سب ہی غلط بیانی کررہے ہیں، یہ اپنے مفادات پر آئین کا لیبل لگانے کی کوشش کررہے ہیں ،یہاں پرآئین کا نام لے کر آئین ہی کو سر عام مذاق بنایا جارہاہے۔
اگر دیکھا جائے تو آئین کا پر چار کرنے والوں کا اصل مسئلہ آئین کی بالادستی نہیں، بلکہ اصل مسئلہ اپنے مفادات کا حصول رہا ہے،حکمران اور اپوزیشن کے اپنے اپنے مفادات ہیں ،جبکہ ن دونوں گروہوں میں شامل سیاسی چولا اوڑھے وڈیروں، چودھریوں اور خانوں، سرداروں کے اپنے مفادات ہیں،یہ سب نام تو آئین کا لے رہے ہیں، ایوان پارلیمان میں آئین کی کتاب اُٹھا کر آئین پر چلنے کا عہد بھی دہرارہے ہیں،
لیکن اس نام پر بھی کوئی ایک جگہ مل بیٹھنے کو تیار نہیںہے،یہ سب کسی نہ کسی کے کنٹرول میں ہیں اور انہیں کے اشارے پر چلتے ہیں ،یہ کہنا اور سمجھنامشکل ہے کہ کون کس کے لیے کام کررہا ہے، لیکن یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ جو لوگ بھی آئین، ریاست کے نام پر لڑ رہے ہیں یا لڑوا رہے ہیں، وہ اپنے دعوے میں زرابرابر بھی مخلص نہیں ہیں۔
اس ملک میں بڑھتی کشیدگی کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہر لڑائی آخری لڑائی ہے،لیکن ہر لڑائی کے بعد نئی صف بندی ہوجاتی ہے ،ایک ہی قسم کا جتھہ بنجاروں کی طرح ایک پارٹی سے دوسری میںچلا جاتا ہے، حکمرانی کرتا ہے اور ملک کو تباہ کرتا ہے ،لیکن ماننے کیلئے تیار نہیں ہے ،یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے اور اس کی روک تھام کرنے کے بجائے سب ہی ایک دوسرے سے دست گریباں ہیں
،سیاسی تقسیم کے ساتھ ادارتی تقسیم بھی بڑھتی جارہی ہے ،ملک میں کوئی ادارہ کوئی عہدیدار غیر متنازع نہیں رہا ہے ،ہر ایک کو متنازع بنایا جارہا ہے ،صدر مملکت تک کو حرف تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،کیو نکہ صدر نے حکومت کی جانب سے عدالتی اصلاحات کے عجلت سے بھی زیادہ سرعت سے منظور کیے گئے بل پر دستخط کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیا ہے،صدر کا اعتراض ہے کہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے،یہ بل مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
حکمران اتحاد اپنے حصول مفاد کیلئے تمام حربے استعمال کررہا ہے ،جبکہ اپوزیشن پوری کوشش کررہی ہے کہ انہیں رکا جاسکے ، دونوں کے درمیان ایک دوسرے کو گرانے اور نچا دکھانے کی لڑائی جاری ہے ،یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ عدالتی اصلاحات بل کسی کے اشارے پر تیار کیا گیااور تیز رفتاری سے منظور بھی کیا گیا ہے ، صدرنے بھی کسی کے اشارے پر ہی اسے واپس کرکے تھوڑا وقت لے لیا ہے، تاکہ اس دوران کہیں کچھ پیچیدہ فیصلے بھی ہوجائیں گے،یہ اور بات ہے کہ شاطر نے اسمبلی میں پھر سے کھینچا تانی کرکے اس فیصلے کو بدلنے کا ارادہ کیا ہوا ہے،آئند ہ آنے والے وقت میں کیا ہو گا
، کوئی چیز یقین سے نہیں کہی جاسکتیں، صرف یہ بات یقینی ہے کہ تمام فریق اپنے دعوئوں میں سچے نہیں ہیں،سارے اپنے مفاد کیلئے کبھی آئین اور کبھی پارلیمان کا سہارا لے رہے ہیں اور اپنے مفاد کیلئے ہی آئین سے انحراف اور پارلیمان کی بے توقیری بھی کررہے ہیں، تاہم حکومت اور اپوزیشن کے معاملات محض بیان بازیوں سے کبھی حل نہیں ہوں گے، اس کیلئے تمام فریقوں کو دماغ اور دل کھول کر بیٹھنا ہوگا ،ورنہ انجام صرف تباہی ہوگا۔
اگر پاکستانی سیاسی قیادت واقعی چاہتی ہے کہ ملک کسی اچھے راستے پر چل پڑے، ملک میں ترقی ہو ،بھیک نہ مانگنا پڑے،کشکول توڑا جائے تو سب کو اپنے اپنے دائروں میں رہنا ہو گا، اگرکوئی تنازعہ آئے تو آئین سے رجوع کرتے ہوئے پارلیمان میں مل بیٹھ کر حل کرنا ہوگا،سیاسی قیادت سے لے کر اعلی عہدیدار جب تک مقتدرہ کے شاروں پر چلتے رہیں گے اور انہیں سے پوچھ کر قدم اٹھاتے رہیںگے،
اس طرح ہی تباہی کا سامنا کرتے رہیں گے،ایک عرصہ دراز تک کسی کے زیر اثر رہنے کے بعد اس کی گرفت سے باہر نکلنا مشکل ضرور ہے، لیکن بچت کا راستہ یہی ہے کہ آئین و قانون کے دائرہ کار میں اپنے ہاتھ پائوں باندھیں جائیں اور شتر بے مہار اداروں کو بھی قابو میں لایا جائے، اس کے بغیر در پیش بحرانوں سے نکلنا ممکن دکھائی نہیں دیتا ہے ،یہ آج نہیں تو کل کرنا ہی پڑے گا ،تاہم افسوس ناک امر ہے کہ اس سارے عمل میں غریب عوام پس کررہ جاتے ہیں،عوام خود بھی تو اس بھنور سے نکلنا نہیں چاہتے ہیں
، خود کو بدلنا نہیں چاہتے ،وہ بار بار آزمائے کو آزمانا چاہتے ہیں ، عوام جب تک تعصب، زبان، برادری ،علاقے ، پارٹی کے دائرے سے باہر نہیں نکلیں گے اور ایک درست دیانت دار مخلص قیادت کا انتخاب نہیں کریں گے ،اس طرح ہی پستے اور بے موت مرتے رہیں گے ،عوام جب تک خود کو نہیں بدلیں گے ،حالات کبھی نہیں بدلیں گے!