عوام بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں ! 47

فیصلہ ہوگیا، عمل بھی ہوگا !

فیصلہ ہوگیا، عمل بھی ہوگا !

ملک بھر میں عام انتخابات عوامی مطالبہ ہے ،مگرحکمران اتحادی آئینی پابندیوں، عدالت عظمیٰ کے فیصلوں اور عوام کی مرضی کے باوجود انتخابات کرانے پر آمادہ نظر نہیں آرہے ہیں، اس حوالے سے سپریم کورٹ کے دو الگ الگ احکامات بھی ٹھکرا دیئے گئے ہیں کہ انہیں تحریک انصاف کے ہاتھوں اپنی انتخابی شکست واضح دکھائی دے رہی ہے،اتحادی حکومت ایک طرف انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کیلئے مختلف توجیحات بیان کرتے ہوئے پارلیمنٹ کا استعمال کر رہی ہے تو دوسری جانب ایک متوازی منصوبے پر کام بھی جاری ہے کہ ملک میں بگڑتے ہوئے معاشی حالات کا فائدہ اٹھا کر ہنگامی حالت کا اعلان کیا جائے

اور انتخابات کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کیا جائے،حکمران اتحاد ی اور ان کے خیر خواہ کی ایک ہی کوشش ہے کہ کچھ بھی ہوجائے انتخابات ہونے دینے ہیں نہ ہی تحریک انصاف قیادت کو اقتدار میں آنے دینا ہے ،اس کیلئے ہر چیز کو دائو پر لگایا جارہا ہے۔حکمران اتحادی انتخابات سے گریز کرنے اور اپنے بے شمارمبینہ جرائم کے احتساب سے بچنے کی بے تاب کوشش میں ناقابل تصور نتائج کو نظر انداز کرنے کا خطرہ مول لے رہے ہیں،حکمران عدالت عظمیٰ کی حکم عدولی کرکے توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں

،اس حکم عدولی پر وزیر اعظم کے خلاف تو ہین عدالت کی کاروائی کی جائے گی یا اس کی زدمیں پوری کا بینہ آئے گی اور پارلیمنٹ کا کیا ہو گا جو کہ حکومت کی پشت پر کھڑی عدلیہ کے خلاف قرار دادیں منظور کررہی ہے ،تو ہین عدالت کا کیس کس کے خلاف چلے گا اور کون زد میں آئے گا ،اس کا فیصلہ تو سپریم کورٹ نے ہی کرنا ہے ،تاہم حالات کی تپش بتارہی ہے کہ توہین عدالت کی کاروائی ہو گی اور وزیر اعظم کو گھر جانا پڑسکتا ہے،یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پوری حکومت ہی چلی جائے ،لیکن الیکشن نہیں کرائے گی،جبکہ اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ چودہ مئی کو انتخابات ہوں گے اور یہی حکومت کرائے گی۔
موجودہ حکومت ان بدلتے حالات سے اچھی طرح باخبر ہے ،اس کے باوجود الیکشن نہ کرانے پربضد دکھائی دیتی ہے ،میاں نواز شریف نے اپنی پارٹی اوراپنے اتحادیوں کو پیغام دیا ہے کہ بھلے کتنے ہی وزیر اعظم توہین عدالت کے شکار ہو جائیں ،الیکشن نہیں کروائے جائیں گے ، ایک طرف حکومت کسی صورت الیکشن کرانے کیلئے تیار نہیں تو دوسری جانب عدالتی فیصلہ نہ ماننے کا عندیہ بھی دیا جارہا ہے ،اس کے ساتھ وزارت قانون ایک ریفرنس پر بھی کام کررہی ہے ،جوکہ سپریم جو ڈیشل کو نسل کو بھیجا جائے گا ،اگر ایسا ہوا تو پھر حکومت اور جمہوریت ،دونوں کا ہی نقصان ہوسکتا ہے،حکومت ہر نقصان برداشت کرنے کیلئے تیار ہے ،مگر الیکشن کرواکے ہار برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
سیاستدانوں کو الیکشن میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے ،لیکن اس ہار کے ڈر سے جمہوریت کو دائو پر نہیں لگانا چاہئے ،اگر جمہوریت ہی چلی گئی تو سیاست کیسے چلے گی ،جمہوریت کی افادیت کو اتحادی بخوبی جانتے ہیں ،مگر ہوس اقتدار میں سب کچھ ہی دائو پر لگا ئے جارہے ہیں ،یہ سیاست نہیں ،ریاست و جمہوریت بچانے کے دعوئے تو بہت کرتے ہیں ،مگر ریاست وجمہوریت بچانے کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں ہیں ،یہ اپنی سیاست اور اپنے مفاد ات کیلئے اداروں کو بھی اپنی سیاست میں گھسیٹ لائے ہیں،

اس میں ایک بار پھر انتہائی قابل نفرت نظریہ ضرورت کاعفریت سر اٹھا سکتا ہے،لیکن اس کی حکمران ٹولے کو کوئی پرواہ ہے نہ ہی جمہوریت چلے جانے کا کوئی خوف ہے ،یہ ماریں گے یا مرجائیں گے کی راہ پر گامزن ہیںاور چاہتے ہیں کہ ایوان اقتدار میں کوئی بھی آئے ،لیکن تحریک انصاف کو نہیں آنے دیں گے ،اس کیلئے جہاں ہر جائزو نا جائز حربے آزمائے جارہے ہیں ،وہیں آئین و قانون کی بھی بڑی بے دردی سے خلاف ورزیاںکی جارہی ہیں ،اس پر شٹ اپ کال دینے والے تو پشت پناہی کررہے ،لیکن اعلیٰ عدلیہ نے آئین و قانون کی پاسداری کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے۔
اس وقت ملک ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور سب نے فیصلہ کرنا ہے کہ ریاست ایک قانونی اور آئینی ادارے کے طور پر کام کرے گی،

یا پھر اسے ناقابل قبول بندوبست خیال کیا جائے گا،ہماری مفاد پرست اشرافیہ کی ناجائز اور وسیع وعریض سلطنتیں دراصل سنگین جرائم سے بنی ہیں اور وہ قومی خزانہ لوٹ کر اپنے اثاثہ جات مزید بڑھائے چلے جارہے ہیں ،اس سیاسی مافیا کا حساب و کتاب کب تک این آر او کی نظر کیا جاتا رہے گا ،یہ کب تک اپنی من مانیاں کرتے رہیں گے اور اپنے حصول مفادمیںملک وعوام کو یر غمال بناتے رہیں گے ،عوام بھی بار بار آزمائے ہوں سے تنگ آچکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایک بار ملک کے لٹیروںکو عوامی عدالت میں لایاکھڑا کیا جائے

اور عوام کو فیصلہ کرنے کا آزادانہ حق دیا جائے ،عوام اپنے ووٹ کے ذریعے بتائیں گے کہ کیسے سب سے بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں ،عوام کی نظر یں اعلی عدلیہ پر لگی ہیں ،عوام پُراُمید ہے کہ اعلی عدلیہ ان کا آزادانہ شفاف حق رائے دہی دلانے میں جہاں کا میاب ہو گی ،وہیں حکم عدولی کرنے والوں کو تاحیات سبق بھی سکھائے گی کہ اعلی عدلیہ کے فیصلوں پر عمل کیسے ہوتا ہے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں