عوام بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں ! 36

مذاکرات پر کوئی یوٹرن نہیں !

مذاکرات پر کوئی یوٹرن نہیں !

حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان سیاسی کشیدگی اپنے عروج پر ہے ،پارلیمنٹ اور عدلیہ کا معاملہ بھی درست سمت جاتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،ادارے ایک دوسرے کی رٹ تسلیم کرنے پر تیار نظر نہیں آتے ہیں ، ملک میں جاری کشمکش سے عوامی سطح پر بھی بے چینی کے اثرات نمایا ہیں ،اس صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی سینئر قیادت حکومت اور اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اپنا کردار ادا کرے

،اس کی داغ بیل امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ڈالی ہے ،پہلے ہی مرحلے میں وزیر اعظم شہباز شریف اور پی ٹی آئی کے سر براہ عمران خان ایک دوسرے سے مذاکرات پر رضامند ہو گئے ہیں ،تاہم اب آگے دیکھنا ہے کہ یہ بیل منڈھیر چڑھتی ہے کہ راستے میں ہی کسی اشارے پر ٹوٹ کے بکھر جاتی ہے۔
ایک ایسے ماحول میں جب کہ ملک کے اہم ادارے ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہیں دو اہم فریق جن کا تعلق ایک ہی ادارے سے ہے اپنی صفوں میں کم از کم بات چیت پر رضا مند ہوگئے ہیں،یہ حکومت اور اپوزیشن قیادت کی جانب سے ایک اہم پیش رفت ہے ،لیکن پس پردہ کچھ قوتیں اپنی ضد پر اَڑی ہوئی ہیں اور اسے منوانے کے لیے ملک کے ہر ادارے کو میدان میں اْتار رہی ہیں،ایک طرف سیاست سے دور رہنے کی یقین دہانی کرائی جارہی ہے

تو دوسری جانب پشت پناہی بھی دکھائی جا رہی ہے ،اس قول وفعل کے تزاد نے سب کو الجھا رکھا ہے ،سیاستدان چاہتے ہوئے بھی اپنے معاملات اپنی من منشاکے مطابق آگے بڑھا نہیں پارہے ہیں ۔
ہمارے سیاستدانوں اور حکمران پارٹیوں کا پرانا وتیرہ رہا ہے کہ اپنے لانے والوں سے پوچھے بغیر معاملات آگے نہیں بڑھاتے ہیں، اس لیے اکثر طے شدہ امور پر بھی اپنے فیصلوں اور اعلانات سے مکر جاتے ہیں،اس بار بھی کہیں ایسا ہی نہ کیا جائے،کیو نکہ یہ ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے بجائے مقتدرہ پر اعتماد کرتے ہیں

اور انہیں سے گارنٹی چاہتے ہیں ،جبکہ خود مانتے ہیں کہ ان سے بار ہا وعدہ خلافی کی جاتی رہی ہے ، پی ڈی ایم سر برہ مولانا فضل الرحمن بھی اپنے ساتھ ہونے والی وعدہ خلافی کا اظہار کھلے عام کررہے ہیں ، اگراس کے بعد بھی سیاسی جماعتیں پھر وہی غلطی دہرائیں گی اور اپنی ضمانت خود دینے کے بجائے انہیں قوتوں سے لینے جائیں گی تو پھر ان کے اپنے ہاتھ میں کیا رہے گا،اس طرح پہلے بھی دوسروں کے زیر اثر رہے اور آئندہ بھی انہیںکے زیر اثر رہیںگے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک میںتمام تر مسائل ان حکمران پارٹیوں کے ہی پیدا کردہ ہیں، لیکن اس بحران سے نکلنے کے لیے بھی ان ہی کو راستہ نکالنا ہوگا، اگرکسی اور سے مسائل کا حل مانگا تو وہ اپنی ترجیحات اور فہم کے مطابق حل تجویز کرے گا ،اس لیے سیاسی قیادت کو اپنی غلطیوں کی اصلاح خود ہی کرنا ہو گی،

ہر معاملے میںاداروں کوگھسیٹنا نہیںچاہئے ، اگر ہر معاملے میں اداروں کو گھسیٹا جائے گا تو پھر کہیں نہ کہیں تجاوز بھی ہو گا ، اس پر واویلا مچانے اور ٹکرائو پیدا کر نے کے بجائے سیاسی معاملات سیاسی انداز میںحل کرنے چاہئے اگر خرابی سیاستدانوں نے پیدا کی ہے تو حل بھی انہیں خود ہی نکالنا چاہئے ،اس حوالے سے جب بھی سیاسی حل نکالنے کی مخلصانہ کوششیں کی جاتی ہے تو کوئی نہ کوئی بہتر راستہ نکل ہی آتا ہے۔
اس وقت بظاہر ایساہی لگ رہا ہے کہ سیاسی قیادت کوحالات کی سنگینی کا احساس ہو چکا ہے ،اس لیے محاذ آرئی مزید بڑھانے کے بجائے مذاکرات کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا جارہا ہے، اگر سیاسی رہنما اپنے مسائل خود حل کرکے اتفاق رائے کے ساتھ عوام کے مسائل کے حل کے لیے خلوص نیت سے کام کریں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ کسی قوت کو بھی مداخلت کا کوئی موقع ملے،یہ خود ہی غیر سیاسی قوتوں کو مواقع دیتے ہیں،اور خودہی اعتراض بھی کرنے لگتے ہیں،یہ خود ہی خفیہ رابطے کرتے ہیں اور خود ہی اپنے حصول مفاد میں آلہ کار بنتے ہیں، اب بھی بظاہراُن کی رضامندی کے بغیر مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا جارہاہے

، لیکن یہ اپنے خلوص کا ثبوت کس طرح دیں گے کہ قوم کو یقین ہوجائے کہ اس بار کہا جانے والا سچ ہے اور کسی کے کہنے پر کو ئی یو ٹرن نہیں لیا جائے گا،یہ اب ان کی اپنی ساکھ اور سب سے بڑھ کر ملک کے مستقبل کا بھی سوال ہے ،حکمراں محض ایک دوسرے پر الزام لگا کر اور ایک دوسرے پر ملبہ ڈال کر بری الذمہ ہوسکتے ہیںنہ ہی راہ فرار اختیار کر سکتے ہیں،حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنے کیے گئے وعدوں کا پاس رکھنا ہوگا ،اگر اس بار پھر کسی کے اشارے پر مکر گئے اور یو ٹرن لے لیا تو عوام انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے،عوام کے ہاتھ میں ان سب کے گریباں ہوں گے اور کوئی بچانے والا نہیں ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں