درست راستے کا انتخاب ! 45

درست راستے کا انتخاب !

درست راستے کا انتخاب !

ملک کا آئین اجازت نہیں دیتا کہ الیکشن میں تاخیر کی جائے ،لیکن انتخابات کا انعقاد تا حال ایک معمہ بناہوا ہے ،حکومت کے وزیر ڈاخلہ دو ٹوک پیغام دے چکے ہیں کہ جتنا مرضی زور لگا لیں ،الیکشن چودہ مئی کو ہر گز نہیں ہوں گے ،حکومت کی ہٹ دھرمی دیکھتے ہوئے سب کی نظریں عدلت عظمیٰ کی طرف لگی ہوئی ہیں ،سپریم کورٹ نے ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ سیاستدان ایک پیج پر آجائیں تو اس بحران کا نہ صرف حل نکل سکتا ہے ،بلکہ ملک بھر میں عام انتخابات بھی ایک ہی دن کرائے جاسکتے ہیں

،اگر سیاستدان متفق نہ ہوئے تو پنجاب کے انتخابات چودہ مئی کو ہی ہوں گے ۔حکمران اتحاد مذاکرات اور انتخابات کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں ،لیکن سپریم کورٹ کا موڈ دیکھتے ہوئے نہ صرف مذاکرات کیلئے تیار نظر آنے لگے ہیں ،بلکہ عام انتخابات سے جڑے سبھی آپشن پر غور کرنے کا عند یہ بھی دیے رہے ہیں،تاہم مولانا فضل الرحمن ابھی تک لندن پلان پر ہی عمل پیراں ہیں ،مولانا کا کہنا ہے کہ ایک دور تھا کہ ہمیں بندوق کے سائے میں کہا جاتا تھا کہ بات چیت کرو، آج ہمیں ہتھوڑے کے سامنے کہا جا رہا ہے

کہ مذاکرات اور بات چیت کی جائے،اگر ہم پر ایسے ہی جبر کی بنیاد پر فیصلے مسلط کیے گئے تو ہم بھی عوام کی عدالت میں جائیں گے۔مولانا ایک طرف عوام کی عدالت میں جانے کی باتیں کرتے ہیں تو دوسری جانب عوام کی عدالت میں جانے سے ہی گریزاں ہیں ،وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں عوام بری طرح مسترد کردیں گے ،کیو نکہ انہوں نے اپنے دور اقتدارکے پورے سال اپنے دعوئوں اور وعدوں کے مطابق کچھ بھی نہیں کیا ہے

،عوام چاہتے ہیں کہ یہ سب ان کی عدالت میں آئیں اورعوامی فیصلے کا سامنا کریں ،لیکن یہ عوام کی عدالت میں آنے سے مسلسل بھاگ رہے ہیں ،عوام کی عدالت میں جانے سے بچنے کیلئے ہی کبھی پارلیمان کا سہارا لیا جارہا ہے تو کبھی طاقتورحلقوں کو ساتھ بٹھا کر تاثر دیا جارہا ہے کہ ہمیں کوئی عوام کی عدالت میں جانے پر مجبور نہیں کرسکتا ہے۔اس وقت سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا تقاضا ہے کہ سیاسی قیادت ٹکرائو کی سیاست کے بجائے افہام تفہیم کی راہ اختیار کرے اور سیاسی معاملات سیاسی انداز میں مل بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کرے ،یہ امر اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے

کہ جب بھی سیاسی اعتبار سے معاملات کو پوائنٹ آف نوریڑن پر پہنچایا گیا تو اس کا خمیازہ صرف سیاسی قیادت کو ہی بھگتنا نہیں پڑا ہے ،بلکہ اس کے منفی اثرات ملک وقوم پر بھی مرتب ہوئے ہیں ،اس کی تازہ مثال سب کے سامنے ہے کہ ملک کی ترقی کے سفر کو رہورس گیئر لگا ہوا ہے ،حکومت بار بار دعوئوں کے باوجود ابھی تک سیاسی ومعاشی بحرانوں پر قابو پاسکی نہ ہی عوامی مسائل کا تدارک کر پارہی ہے ،عوام حکمران اتحادکی کار کردگی سے انتہائی مایوس دکھائی دیے رہے ہیں ۔
ملک میں پھلتی مایوسی سے نکلنے کا واحد راستہ عام انتخابات کا فوری انعقاد ہے ،لیکن حکمران اتحاد ہار کے خوف سے انتخابات میں جانے کیلئے تیار نہیں ہیں ،حکمران انتخابات کے انعقاد سے جتنا مرضی بھاگیں ، جتنے مرضی بہانے تراشیں ،آج نہیں تو کل انتخابات کروانا ہی پڑیں گے ،عدالت بھی عندیہ دیے چکی ہے کہ فیصلہ ہو چکا ،پیچھے نہیں ہٹیں گے ،اس کے باوجود سیاسی جماعتوں کو موقع دیا جارہا ہے

کہ اگر ایک موقف پر آجائیں تو عدالت یکساں انتخاب کی راہ نکال سکتی ہے ،اعلیٰ عدلیہ ایک مشکل وقت میں آئین کی بالادستی کی بات کر رہی ہے‘ سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کا کہہ رہی ہے،یہ وقت گزر جائے گا،ہار جیت ماضی کی خاک بن کر غیر اہم ہو جائے گی، لیکن اس وقت بھی سپریم کورٹ کے موقف کو ہی سراہا جائے گا۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک غیر معمولی حالات کا سامنا کر رہا ہے،معیشت‘ سیاست اور سماج بحرانوں کی زد میں ہیں،دنیا ترقی کر رہی ہے‘ خوشحال ہو رہی ہے‘ خود کو مستقبل کے چیلنجوں کے لئے تیار کر رہی ہے ،جبکہ پاکستانی قوم بقا کے لئے ہاتھ پائوں مارتی نظر آتی ہے،حکمرانوں کی تر جیح عوام نہیں ،اپنے مفادات ہیں،

وزارت دفاع سکیورٹی کی صورت حال کا جواز پیش کررہا ہے، وزارت خزانہ فنڈز کی قلت کی بات کر رہی ہے،جبکہ سپریم کورٹ ان کے موقف مسترد کرتے ہوئے وہ دروازہ کھول رہی ہے ،جو کہ متحارب‘ ایک دوسرے سے ناراض اور کسی حد تک قومی مفاد کو فراموش کر دینے والی سیاسی جماعتوں کو موقع دے سکتا ہے کہ وہ اپنے درست راستے کا انتخاب کر سکیں،اگر اس بار بھی درست راستے کا انتخاب نہ کیا گیا تو اس کا خمیازہ بھی خود ہی بھگتنا پرے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں