دہشت گردی کے خاتمے کا نیاعزم !
پا کستان میں دہشت گردی کا ناسور ہے کہ ختم ہو نے میں ہی نہیں آرہا ہے ،پاک فوج نے دودہائیوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف کا میابی حاصل کرنے کیلئے غیر معمولی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور بے بہا جانی قربانیاں دے کرارض پاک کو دہشت گردوں کے پنجے سے چھڑایا ،لیکن ایک بار پھرملک کے مختلف حصوں بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات، سیکورٹی فورسز اور چوکیوں پر حملوں کے واقعات کا رونما ہونا اور سیکورٹی فورسز کا انٹلیجنس بیسڈ آپریشنوں پر دوبارہ مجبور ہونا جہاں ریاستی عملداری مضبوط بنانے کے جامع منصوبے بروئے کار لانے کی ضرورت اُجاگر کر رہا ہے، وہیں اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت بھی واضح کررہاہے
کہ دہشت گردوں کی ایک بار پھر واپسی کیوں کراور کیسے ممکن ہوئی ہے؟سیاسی وعسکری قیادت نے ایک بار پھر عزم کا ظہار کیا ہے کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا،یہ عزم کم از کم دو درجن مرتبہ کیا جاچکا ہے، اس عزم کو بار ہادہرانے کے بعد بھی وہی سب کچھ ہورہا ہے ،جو کہ اس سے قبل ہو رہا تھا ،دہشت گردانہ کاروائیاں تسلسل سے جاری ہیں ، کبھی کوئٹہ، کبھی کوہلو، کبھی پنجاب کے کسی شہر میں اور اب سوات کے سی ٹی ڈی تھانے میں بھی دھماکے ہوگئے ہیں،ہر دہشت گردی کے واقعے کے بعد سہو لت کار پکڑے جاتے ہیں ،ماسٹر مائنڈ کوبھی گرفتار کر لیاجاتا ہے اور یہ دعویٰ بھی کردیاجاتا ہے کہ دہشت گردوں کی چین (زنجیر) کا صفایا کردیا گیا ہے ، لیکن اس کے بعد پھر کہیں نہ کہیں دہشت گردی کا ہو لناک واقعہ ہو جاتا ہے اور سیکورٹی ادارے اسے روک ہی نہیں پاتے ہیں۔
یہ کتنی حیرانگی کی بات ہے کہ سی ٹی ڈی خود دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والا ادارہ ہے ،لیکن اس ادارے کو بھی خبر نہیں ہوئی کہ اس کی عمارت میں دہشت گردی ہونے والی ہے ، اس دھماکے میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور ایک بڑی تعداد میںلوگ زخمی ہوئے ہیں،تاہم یہاں بھی وہی کچھ نظر آیا جوکہ دوسرے دہشت گردی کے واقعات میں دکھائی دیتا ہے،اس دہشت گردی کے واقعے کے بعد سارے علاقے کو فورسز نے گھیرے میں لے لیااور اب تحقیق و تفتیش کے بعد مختلف انکشافات کیے جارہے ہیں ، سیکورٹی اداروں کی تحقیق و تفتیش پر کوئی تنقید ہے نہ کوئی اعتراض ،مگر آئندہ ہو نے والے واقعات کی روک تھام کا کوئی بندوبست ہوتا بھی نظر آنا چاہئے ، یہ مانا کہ دہشت گردی کی روک تھام کوئی آسان کام نہیں ہے ،لیکن ہر دہشت گردی کے واقعے میں اپنے کمزور پہلوں کاسد باب تو کیا جاسکتا ہے ۔
اگر دیکھا جائے توپاکستانی قوم کے نصیب میں دھماکے، دہشت گردی، آپریشن، انسانی حقوق کا غصب ہونا اور ایک بار پھر دہشت گردی کی نئی لہر کا شروع ہونا ہی لکھا ہے،اس سے پہلے شہریوں کے تحفظ کے لیے صرف پولیس ہوتی تھی اور ایک سی آئی ڈی ہوتی تھی،لیکن دہشت گردی کے واقعات جب بڑھتے گئے توسیکورٹی کے ادارے بھی بڑھتے چلے گئے،لیکن اس سے دہشت گردی کا سد باب تو نہ ہو سکا ،البتہ عوام کی آزادی ضرور سلب کی جارہی ہے ،حکمران قیادت دہشت گردی کے قوانین کے ذریعے اپنے مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنارہی ہے اور کوئی پو چھنے والا نہیں ہے
، حکمرانوں کا جب دہشت گردی کے حوالے سے ایسا غیر سنجیدہ رویہ ہو گا تو دہشت گردی کا سد باب کیسے کیا جاسکے گا،حکمران قیادت تو سیکورٹی کو نسل کے اجلاس میں شرکت بھی اپنے مفادات کے پیش نظر کرتے ہیں،حکمرانوں کی تر جیحات میں دہشت گردی کے بجائے اپنے اقتدار کو طول دینا ہے ،لیکن ادارے کیا کررہے ہیں،وہ ان سے حساب لے رہے ہیں نہ ہی ان کا احتساب کرنے کیلئے تیار دکھائی دیتے ہیں ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ دہشت گردی کے خطرارات اپنی جگہ ،مگر اس وقت دیکھاجائے تو ہمیں قو می سطح پرشدت پسندی سے زیادہ اپس کی نا چاقی سے زیادہ خطرہ ہے ،ہمیں درپیش تمام خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک قوم ہونے کا ثبوت دینا ہو گا اور یہ آپس میں اعتماد ،احترام ، لحاظ اور حقیقت پسندی کے بغیر ممکن نہیں ہے ، دہشت گردی کے خلاف اداروں کو جہاں اپنی کمزوریوں کا ادراک کرنا ہوگا
تو سب پر سکون زندگی گزار سکیں گے اور اگر خوف و بے یقینی کی فضا رہے گی تو پھر ہر ایک کیلئے مشکلات بھی بڑھتی چلی جائیں گی ،ہم دہشت گردی سمیت دیگر مشکلات پر قابو پانے کیلئے ایک عزم کے ساتھ مشترکہ اعلامیہ تو جاری کرتے ہیں ،مگر اس پر سنجیدگی سے عمل پیراں نہیں ہوتے ہیں ،ہم جب تک ہرنئے عزم کے ساتھ اپنے مشترکہ اعلامیہ پر عمل پیراں نہیں ہوں گے ،تب تک دہشت گردی کے ناسور سمیت درپیش مشکلات پر کبھی قابو نہیں پاسکیں گے