درست راستے کا انتخاب ! 50

عدالتی فیصلہ ماننا ہی پڑے گا !

عدالتی فیصلہ ماننا ہی پڑے گا !

حکومت پارلیمنٹ کی آڑ میں سپریم کورٹ کے ساتھ برسر پیکار ہے، حکومت پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات سے انکار کر رہی ہے ، اس کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں انتخابات ایک ہی وقت میں ہونے چاہئیں اور پنجاب و خیبر پختون خوا میں قبل از وقت انتخابات کروانا قومی مفاد میں نہیں ہے ، حکومت اس حوالے سے سپریم کورٹ کے یکم مارچ کو جاری ہونے والے متنازعہ فیصلہ کا سہارا لے رہی ہے ،

وزیر اعظم کے ساتھ دیگر عہدیداروں کا بھی کہنا ہے کہ یہ اقلیتی ججوں کا فیصلہ تھا کہ جسے اکثریتی ججوں کا فیصلہ قرار دے کر قوم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،جبکہ دوسری طرف سپریم کورٹ نوے روز کے اندر انتخاب کروانے کی آئینی شق کا حوالہ دیتے ہوئے مطالبہ کر رہی ہے کہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کروائے جائیں،تاہم حکومت انتخابات کروانے سے انکار ی ہے ،

بلکہ آئندہ آنے والے فیصلوں کو بھی نہ ماننے کا عندیہ دیے رہی ہے ۔دنیا ادھر کی اُدھرہو جائے اتحادی حکومت انتخابات کروانے کیلئے کسی صورت تیار نہیں ہے ،انتخابات سے التواکیلئے نہ صرف تمام ہر بے استعمال کیے جارہے ہیں ،بلکہ سپریم کورٹ کی حکم عدولی کیلئے پار لیمنٹ کا سہارا بھی لیا جارہا ہے ،اس بات پر پارلیمنٹ میں موجود ساری جماعتیں متحد ہیں کہ اقتدار چھوڑیں گے نہ ہی انتخابات کروائیں گے

،اس کیلئے آئین وقانوں کی پامالی سے لے کر سپریم کورٹ کی حکم عدولی تک کا ہرکام پارلیمنٹ کی آڑ میںبڑی ہی دیدہ دلیری سے کیا جارہا ہے۔اتحادی حکومت ایک طرف اپنے اجلاسوں میں سپر یم کورٹ سے محاذ آرائی کیلئے پارلیمنٹ کا بھرپور استعمال کرنے کا فیصلہ کررہی ہے تو دوسر طرف دھائی ڈالے جارہی ہے کہ عدالیہ پارلیمنٹ کے کام میں مداخلت کرتے ہوئے تجاوز کررہی ہے ،اس حوالے سے آئے وز حکومتی وزراء کے بھی نت نئے اقوال زریں سناننے کو ملتے ہیں کہ پالیمنٹ سپریم ہے ،مقدس ہے

،گویا دنیا میں صرف پارلیمنٹ ہی مقدس ہے ، باقی سب اس کے طفیلی اور باج گزار ہیں، پارلیمنٹ جب جی چاہے بدنیتی کی بنیاد پر قانون پاس کر ے ، جب چاہے آئینی اداروں کے اختیارات سلب کر ے اورجب چاہئے مفاد پرستوں کے مفاد کا تحفظ کرے ،کوئی روکنے ،ٹوکنے اور آئین کی درست سمت پر گامزن کرنے کی جسارت کرنے والا نہیں ہے۔اگر چھبیس سال پرانے واقعات پر نظر ڈالیں جائے اور آج کے حالات کو بغور دیکھا جائے تو حیران کن مماثلت نظر آتی ہے ،یہ ایک ہی سکرپٹ ہے کہ جسے معمولی سے ردوبدل کے بعد دوبارہ فلمایا جا رہا ہے

،لیکن اس بار گزرتے وقت کے ساتھ عوام پہلے سے زیادہ سمجھدار اورباشعور ہوچکے ہیں، اس لئے پرانے سکرپٹ کی فلم ناکام ہو رہی ہے،لیکن اتحادی حکومت اور ان کے سر پرست ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں ،وہ اب بھی بضد ہیں کہ اپنی من مرضی چلائیں گے ،اپنی پسندے کے بندے لائیں گے اور ناپسند یدہ کو آئوٹ کریں گے

،جبکہ اب ہر چیزیں بدل چکی ہیں،وہ اپنی مرضی مسلط کر پائیں گے نہ عوام اپنے پر دوسرے کی مرضی مسلط ہونے دیں گے ،اس بات کو اتحادی اور ان کے سہولت کار جتنا جلد سمجھ جائیں ،ان کے اپنے مفاد میں بہتر ہے ،لیکن وہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے وہی غلطیاں دوبارہ دہرائے جارہے ہیں۔
اتحادی حکومت اپنے ایک سالہ دور اقتددار میں انتقامی اور ٹکرائو کی سیاست کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیاہے،اس کا ہی نتیجہ ہے کہ عوام میں خوفناک حد تک غیر مقبول ہوچکے ہیں، حکومتی اتحاد چند ماہ پہلے ہونے والے ضمنی الیکشن میں بری طرح ہار اہے ،اس ہار کے باعث پی ڈی ایم میں فرسٹریشن اتنی زیادہ ہے کہ اب کسی انتخاب میں جانے کیلئے تیار نہیں ہیں ،انہیں اپنی نہ صرف ہار نظرآرہی ہے

،بلکہ خود کو بچانا بھی مشکل دکھائی دیتا ہے ،لیکن وہ کب تک انتخابات سے بھاگتے رہیں گے ،آج نہیں تو کل انتخابات کروانے ہی پڑیں گے ،اگر انتخابات نہ کروائے تو عدلیہ گھر بھیج دیے گی ،اس کا ادراک کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی آڑ میں عدلیہ سے محاذ آرائی کی جارہی ہے ،تاہم اس محاذ آرائی اور ٹکرائو کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلے گا ،یہ بات اتحادی بھی جانتے ہیں ،اس کے باوجود ہر چیز دائو پر لگا ئے جارہے ہیں،

حکمران اتحاد ی اپنے لیئے مارو یا مرجائو کی کیفیت بنا ئے جارہے ہیں،لیکن یہ ستانوے کادور ہے نہ ہی ستانوے کی سیاہ تاریخ دہرائی جا سکتی ہے ،یہ سامنے کی بات مسلم لیگ( ن) قیادت کے ساتھ ان کے حامیوں کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے یا وہ جانتے بوجھتے سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں یا پھر سیاسی شہید بننا چاہتے ہیں،وہ جتنے مرضی پیترے بدلیں ،جتنی مرضی پارلیمنٹ کی آڑ لے لیں ، انہیں اعلٰی عدلیہ کا فیصلہ باہر حال ماننا ہی پڑے گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں