درست راستے کا انتخاب ! 50

مفادکی سیاست میں سادہ لوح عوام !

مفادکی سیاست میں سادہ لوح عوام ! 

ملک کی دو بڑی اور متحارب سیاسی قوتوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز جتنی گرم جوشی سے کیا گیا،اس کا اختتام اتنا ہی مایوس کن ہوا ہے ، اس بارے میں خدشات کا اظہار پہلے ہی کیا جارہا تھا کہ اگر ایک قوت مذاکرات کروارہی ہے تو دوسری اسے ناکام بنانے میں بھی کو شاں ہے ،یہ دو قوتوں کے درمیان مقابلے بازی میں مذاکرات کی بیل کا منڈھیر چڑھنا اتنا آسان نہیں ،جتنا کہ سمجھا جارہا تھا ،سیاسی قیادت نے کل بھی اشاروں پر چلتے ہوئے جمہوریت کونقصان پہنچایا ،سیاسی قیادت آج بھی اشاروں پر اپنی جمہوریت دائو پر لگار ہے ہیں ،سیاسی قیادت جب تک اشاروں اور سہاروں پر چلتے رہیں گے ،ایسے ہی ناکام مذاکرات کے ساتھ رسوا ہوتے رہیں گے ۔
یہ حقیقت ہے کہ کسی کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا ہے کہ آخر یہ سب کچھ ہو کیا رہا ہے ، ایک طرف مذاکرات کا ڈول ڈالا جاتا ہے تو دوسر جانب پکڑ دھکڑ اور چھاپے شروع کردیئے جاتے ہیں ،اس صورتحال میں اندھے کو بھی پتہ چلتا ہے کہ مذاکرات تو بہانہ ہے ،اصل نشانہ کہیں اور لگایاجارہاہے ،حکومت ایسے ہی تو سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ ماننے سے انکاری نظر نہیں آرہی ہے ،حکومت کو کہیں سے کوئی تھپکی مل رہی ہے

یا یقین دہانی کرائی جارہی ہے کہ کوئی کچھ بھی کرلے ،انہیں اقتدار سے نکلا نہیں جاسکے گا ،اس یقین دھانی کا ہی نتیجہ ہے کہ حکومت کے وزیر داخلہ ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ جو مرضی کرلیں ،سپریم کورٹ کی دی گئی تاریخ پر انتخابات ہوں گے ،نہ ہی توہین عدالت پر نااہلی کا کوئی فیصلہ مانا جائے گا۔
یہ اتحادی حکومت کیا کرنا چاہتی ہے اور کہاں تک جانا چاہتی ہے ،حکومت وہیں تک جارہی ہے کہ جہاں تک جانے کی اجازت دی جارہی ہے،ملک کا وزیر دفاع ایسے ہی تو سر عام نہیں کہہ رہا ہے کہ اگر عدالت نے وزیر اعظم کو توہین عدالت پر نااہل کیا تو حکومت نہیں مانے گی اور سب خاموش ہیں ،کوئی مذمت کررہا ہے نہ ہی کوئی ایک اہم آئینی ادارے کی حکم عدولی کے عندیہ پر گرفت کی جارہی ہے ،اس لیے ہی ایک طرف اعلی عدلیہ کے معزز ججوں پر الزامات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب آڈیو ویڈیو لیکس کے ذریعے اپنے حصول مقصد کیلئے بلیک میل کر نے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
یہ سب کو بخوبی علم ہے کہ یہ سب کچھ کون کروارہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے ،لیکن حیرت تب ہوتی ہے کہ جب آئین و قانون کی خلاف ورزیاں کرنے والے ہی بڑی بے شر می سے آئین و قانون کی بالادستی ہر قیمت پر برقرار رکھنے کا اراگ آلاپتے دکھائی دیتے ہیں ،یہ ایک طرف آئین سے متضاد سمت کا انتخاب کر تے ہوئے اعلی ترین عدلیہ کے احکامات کو پس پشت ڈالتے ہیں اور دوسری جانب ایسی بیان بازی کرکے عوام کے زخموں پر نمک بھی چھڑکاتے ہیں ،عوام سب کچھ صبر کے ساتھ برداشت کرنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں،

عوام صبر کرنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں ،اگر آواز اُٹھاتے ہیں تو پاپند سلاسل کرکے تشدت کی انتہاکی جاتی ہے ،عوام جائیں تو جائیں کہاں ،یہاں تو سب ہی شریک کار ہیں ، ملک کو ایک تجربہ گاہ بنا ہوا ہے، جہاں نت نئے ناکام تجربے کیے جارہے ہیں،لیکن کوئی اپنی ناکامی اور نااہلی مانتے ہوئے درست سمت اختیار کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ہم بحیثیت قوم اور ریاست بالکل ناکام ہو چکے ہیں اور اس میں اداروں کا کردار سب سے نمایاں رہا ہے ،اداروں نے خود ہی آئین و قانون کی رٹ قائم ہونے نہیں دی ہے ،اس کے باعث صورتحال ایسی ہو چکی ہے کہ اب کسی کو کسی پر اعتبار ہی نہیں رہا ہے ،یہ کسی ایک ادارے کی بات نہیں

،اوپر سے لے کر نیچے تک سارا نظام ہی اپنی جگہ سے ہلا ہوا دکھائی دیتا ہے ،کیا ریاست نہیں جانتی کہ اس کی عین ناک کے نیچے کیا ہورہا ہے ،لیکن وہ اس ظلم و ستم کو کبھی نہیںروکے گی ،کیو نکہ یہ سب کچھ اسی کے ایماپر ہو رہا ہے ،یہ تین دہائیوں تک ملک میں اقتدار کے مزے لو ٹنے والے اب بھی سابق حکومت کو ہی تمام تر برائیوں کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں ،لیکن خود سارے دعوئوں کے باوجود بھی ناکام رہے ہیں ،اس حکومت کے ایک سالہ دور میں ایسے حالات کے بارے میں کبھی کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس حالت کو بھی پہنچ سکتے ہیں ،مگر یہ ان ہونی بھی ہو کر ہی رہی ہے

،لیکن حکومتی اتحاد میں سے کو ایک لیڈر بھی ایسا نہیں ہے ،جو کہ ان حالات میں احتجاجی استعفیٰ ہی دیے دیتا ،شاید ایسا کوئی منظر دیکھنے کو کبھی نہیں ملے گا ،کیو نکہ ہماری قیادت مفاد پرست اور اقتدار پرست ہو چکے ہیں اور اس کیلئے سب کچھ ہی دائو پر لگانے کیلئے تیار رہتے ہیں ،تاہم اس مفاد کی سیاست میں سادہ لوح عوام تنے تنہا پس رہے ہیںاور کوئی ان کی دادرسی کرنے والا بھی نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں