درست راستے کا انتخاب ! 44

اُمید ابھی کچھ باقی ہے !

اُمید ابھی کچھ باقی ہے !

ملک میں سیاسی در جہ حرارت قدرے کم ہوا ہے ،اس کی وجہ سیاسی ڈائیلاگ ہے ،جو کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ہوئے ہیں ،پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی مذاکرات کے تین دور میں کچھ باتوں پر اتفاق ہوا،مگر الیکشن کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہو سکا ،پی ٹی آئی نے یک طرفہ طور پر بات چیت ختم کرتے ہوئے

سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرانے کا اعلان کردیا ہے ،جبکہ حکومتی ٹیم کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا آخری دور ہونا ابھی باقی ہے ،اب دیکھنا ہے کہ پی ٹی آئی مذاکرات پر دوبارہ راضی ہوتی ہے اور حکومت کچھ دینے کی پوزیشن میں آتی ہے کہ معاملات ایک بار پھر پرانی پوزیشن پر ہی چلے جائیں گے ۔
پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات پر عوام نے بڑی اُمیدیں لگا رکھی تھی کہ سارے الجھے معاملات سلجھ جائیں گے ،مگر تین مذاکراتی ادوار کے باوجود فریقین میں انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے نہ ہو سکا ،پی ٹی آئی کے مطابق مذاکرات ناکام ہو گئے ،جبکہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کا کہنا ہے کہ مذاکرات ابھی جاری ہیں اور آئنددور میں انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے بھی ہو سکتا ہے ،حکومت کے بیانیہ سے لگتا ہے کہ حکومت مذاکرات جاری رکھنا چاہتی ہے ،جبکہ پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے ،حکومت وقت گزاری کیلئے مذاکرات جاری رکھنے پر زور دیے رہی ہے ۔
اگر دیکھا جائے تو اتحای حکومت نے مذاکرات میں انتہائی غیر سنجیدگی کا ہی مظاہرہ کیا ہے ،ایک طرف مذاکرات کیے جارہے تھے تو دوسری جانب گرفتاریاں اور چھاپے مارے جارہے تھے ،اس انتقامی رویئے کے ساتھ کیسے اعتماد بحال کیا جاسکتا ہے اور کیسے مذاکرات کو کامیاب بنائے جاسکتے ہیں ،تاہم اس صورتحال میں بھی مذاکرات کے تین دور ہوئے ،لیکن اس کے نتائج بتا رہے ہیں کہ اعتماد کے فقدان کے باعث اتفاق رائے ممکن بنایا نہیں جاسکا ہے ،حالانکہ انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے اتنا مشکل کام نہیں ہے

،پی ٹی آئی اکتوبر میں بھی انتخابات کیلئے رضامند ہو سکتی ہے ،لیکن پی ٹی آئی گارنٹی مانگ رہی ہے ،پی ٹی آئی کو خدشہ ہے کہ حکومت اکتوبر میں بھی الیکشن نہیں کرائے گی ،پی ٹی آئی نے حکومت سے کہا ہے کہ ہمیں موجودہ نگراں سیٹ اپ قبول نہیں، اگر فوری الیکشن نہیں ہونے تو پھر پنجاب اور خیبر پختون خواہ حکومتیں بحال کی جائیں ،اب بال حکومت کی کورٹ میں ہے ،اگروہ اپنی بات منوانا چاہتی ہے

تو پھر پی ٹی آئی کی خواہشات کا بھی احترام کرنا پڑے گا۔سیاست میں کچھ دو اور کچھ لو کے اصول سے ہی معاملات آگے بڑھتے ہیں ،حکومت زیادہ دیر تک انتخابات سے بھاگ پائے گی نہ ہی پشت پناہی کرنے والے زیادہ دیر تک ساتھ دیے پائیں گے ،انتخابات عوامی مطالبہ ہے ،عوام چاہتے ہیں کہ وہ فیصلہ کریں کہ کون اقتدار میںرہے گا

اور کون جائے گا ،لیکن طاقت کا سر چشمہ عوام کی مالا جاپنے والے ہی عوام کو حق رائے دہی دینے سے گریزاں ہیں ،حکومت اور پوزیشن کو مذاکرات کے ایک اور دور میں نیک نیتی سے مل بیٹھ کر سارے معاملات سلجھانے چاہئے،سیاسی قیادت کب تک دوسروں کی جانب دیکھتے رہیں گے اور دوسروں کے اشاروں پر ہی ناچتے رہیں گے ،سیاستدانوں کو اب کٹھ پتلی تماشے سے باہر نکلتے ہوئے

اپنے مسائل کی ذمہ داری بھی خود ہی لینا ہو گی اور ان کا باہمی مشاورت سے قابل قبول حل بھی تلاش کر نا ہو گا ،لیکن یہ سب کچھ جمہوری رویہ اپنائے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔یہ امر کسی سے پو شیدہ نہیں ہے کہ اس وقت ملک جس صورتحال سے دوچار ہے ،اس میں سب سے زیادہ حکومت کا غیر ذمہ دار رویہ کار فرمارہا ہے ،حکومت نے ملک کو در پیش سیاسی و معاشی بحرانوں سے نجات دلانے کی کائوشوں کے بجائے سیاسی محاذ آرائی کو فروغ دیا ہے ،یہ سیاسی محاذ آرائی اورٹکرائو کی سیاست کا ہی نتیجہ ہے

کہ ملک دیوالیہ ہو نے کے قریب پہنچ چکا ہے اور ہمارے اندرونی معاملات دیکھتے ہوئے کوئی دوست ملک ہاتھ پکڑنے اور سہارا دینے کیلئے بھی تیار نہیں ہے ،ملک ڈوب رہا ہے اورہم انتخاب کی تاریخ پر اتفاق کرنے میں الجھے ہوئے ہیں،اگر ملک میں عام انتخابات کے بعد بھی سیاسی عد استحکام ایسے ہی موجود رہا ،انتقامی سیاست ہی پروان چڑھائی جاتی رہی اور قومی مفاد پر ذاتی مفادات کو تر جیح دی جاتی رہی تو پھر نہ صرف ملکی معیشت کو درپیش مسائل جوں کے توں رہیں ،بلکہ دیگر کئی بحران بھی سر اُٹھا سکتے ہیں

،اس لیے ضروری ہے کہ ملک میں عام انتخابات سے قبل ہی نہ صرف اُن اسباب کا ادراک کرلیا جائے ،بلکہ اُن کے سد باب کے اقدامات بھی کرنے ضروری ہیں،یہ سب کچھ باہمی مشاورت سے مل بیٹھ کر ہی ممکن ہو گا ،اس کیلئے مذاکرات سے جڑی ٹوٹی اُمید کو دوبارہ جوڑتے ہوئے کامیاب بنانا ہو گا ،اس مذاکراتی عمل کے دوبارہ شروع ہونے سے ہی اُمید وابستہ کی جاسکتی ہے کہ درپیش بحران کا کوئی بہترحل نکل ہی آئے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں