درست راستے کا انتخاب ! 42

دہشت گردی کا سد باب ،مگر کیسے؟

دہشت گردی کا سد باب ،مگر کیسے؟

ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے دہشت گردی کے پے در پے واقعات بتارہے ہیں کہ کالعدم شدت پسند تنظیمیں پاکستان میں بد امنی پھیلانے کے لیے ایک بار پھر پوری طرح سرگرمِ عمل ہیں،ہماری سکیورٹی فورسز نے بہت سی قربانیاں دے کر ان شدت پسند تنظیموں پر قابو پایا تھا، لیکن ہمارے ازلی دشمن بھارت کی سر پرستی میں شدت پسند تنظیمیںکچھ وقفے بعد دوبارہ متحرک ہو جاتی ہیں،

گزشتہ دنوں شمالی وزیرستان کے علاقہ دردونی میں دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے چھ جوان شہید، جبکہ پاک فوج کے جوانوں کی موثر جوابی کارروائی کے نتیجہ میں3 دہشت گرد ہلاک اور 2 زخمی ہو گئے،اس واقعہ کی وزیراعظم سمیت دیگرسیاسی قیادت نے سخت مذمت کی ہے، لیکن ہر بار صرف مذمتی کاروائی کافی نہیں ہے ،سیاسی و غیر سیاسی قیادت کوزبانی کلامی مذمتی کاروائیوں سے آگے بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے سد باب کیلئے عملی طور پر بھی اپنا کردار ا دا کر نا ہو گا۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑنے کے باوجود ابھی تک اس دلدل نکل ہی نہیں پارہا ہے ، اس جنگ میں پاکستان نے 70 ہزار سے زائد شہری شہید، جبکہ معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے ،اس کے باوجود ابھی تک اس جنگ سے خلاصی کا کوئی راستہ نظر ہی نہیں آرہا ہے،نائن الیون کے بعد جب پاکستان فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر افغان جنگ میں کودا تو ہمارے درو دیوار بھی دہشت گردی سے لرز اٹھے ،

یہ دہشت گردی کا تحفہ امریکا نے پا کستان کو دیا اور اس کی ابیاری امریکا کا حلیف بھارت کررہا ہے ، اگر پا کستان افغان جنگ میں امر یکا کا فرنٹ لائین اتحادی نہ بنتا تو کبھی دہشت گردی کا شکا نہ ہو تا ،پا کستان نے افغان جنگ کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی بہت زیادہ جانی و مالی قربانیان دیں ہیں ،لیکن اس قدر جانی و مالی قربانیاں پیش کرنے کے باوجود امریکا نے سراہا نہ ہی دہشت گردی کے ناسور پر قابو پانے میں کوئی خاص مدد گار رہا ہے ،پا کستان تن تنہا دہشت گردی کے ناسور پر قابو پانے میں کو شاں ہے

،اس پر بڑی حد تک قابو پا بھی لیا گیا تھا ،مگر یہ دہشت گردی کا ناسور دشمن قوتوں کی کار گزاریوں کے باعث کچھ وقفے کے بعد دوبارہ پھوٹ پڑتا ہے۔امریکہ کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد ایک اُمید قائم ہوئی تھی کہ اب دپشت گردی سے جان چھوٹ جائے گی ،ملک میں امن و امان قائم ہو جائے گا ،لیکن یہ خیال محض خواب ہی رہا،کیونکہ افغانستان میں اب بھی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں ،افغان طالبان بخوبی آگاہ ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں،

اس کے باوجود افغان طالبان سر حدپار کاروائیوں کو روک نہیں پارہے ہیں،افغان طالبان کی اپنی مجبوریا اور مفادات ہوں گے ،مگر پا کستان کب تک افغان طالبان کی مجبوریوں اور مفادات کیلئے قربانیاں دیتا رہے گا ،افغان طالبان کو اپنا وعدہ پورا کرنا چاہئے ،جو کہ انہوں نے اپنی حکومت قائم ہوتے وقت کیا تھا کہ وہ اپنی سر زمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو نے دیں گے،پا کستان بارہا یادہانی کروتا رہتا ہے ،اس کے باوجود افغان طالبان نہ صرف کالعدم تحریک طالبان کے سامنے ،بلکہ بھارت کے سامنے بھی بے

بس دکھائی دیتے ہیں ،بھارت دہشت گردوں کی پشت پناہی پہلے بھی کرتا رہا ہے اور اب بھی کررہا ہے ،اس کے ثبوت پا کستان بار ہا دیے چکا ہے ،اس کے باوجود عالمی دنیا بھارت کو نکیل ڈالنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے ۔
دنیا ئے عالم اور افغان حکومت کے اپنے مفادات ااور اپنی مجبوریاں ہو ں گی لیکن پا کستان اپنے طور پر سر حد کے اندر اور باہر دہشت گرد گرہوں کے خلاف کاروائی کر سکتا ہے ،اس وقت ویسے بھی کالعد م تحریک طالبان میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے ،وہ آپسی کی لڑائی میں اصل قوت سے محروم ہو چکے ہیں، لہذا اب ایک بار فیصلہ کن آپریشن کے ذریعے ان کا صفایا کیا جاسکتا ہے ،ا س سلسلے میں افواج پاکستان کو تما م تر وسائل کی فراہمی کے ساتھ میدان میں ُا ترنا چاہئے ،تاکہ دہشت گردوں کا مکمل طور پرصفیا ہو سکے

،اس کے علاوہ پولیس کو بھی جدید اسلحہ و آلات سے لیس کرنے کی ضرورت ہے ، کیو نکہ جنوری میں جب پشاور پولیس لائن کی مسجد پر حملہ ہوا ، تو اس کے بعد یہ انکشاف سامنے آیا تھاکہ پولیس کے پاس جدید اسلحہ وآلات ہیں نہ ہی ان کی تربیت ہوئی ہے ،اگر پو لیس فورس کی جدید آلات کے ساتھ تربیت ہی نہیں ہو گی تواس دہشت گردی کا مقابلہ کیسے کیا جاسکے گا ، اگر فورسز کو جدید اسلحہ اور جدید آلات کے ساتھ میدان میں اتارا جائے تو ایک بار پر شمالی اور جنوبی وزیرستان سے دہشت گردوں کے ساتھ ان کے معاونین اور فنانسر کا بھی مکمل طور پر خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ دہشت گردی کے ناسور کے سد باب کیلئے سیکورٹی فور سز کو جہاں تمام تر جدید سہولیات مہیاکر نی چاہئے

،وہیں سیاسی و غیر سیاسی قیادت کوبھی اپنا قومی کر دار ادا کر نا ہوگا ،ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں ،لیکن سیاسی قیادت سمیت دیگرسماجی قیادت زبانی کلامی مذمت تو کرتے ہیں ،لیکن عملی طور پر کوئی کردار ادا نہیں کررہے ہیں ،اس وقت سیکورٹی فورسز کے ساتھ تمام سیاسی وغیر سیاسی قیادت اور ہمارے علما کرام کو تمام تر مصلحتوں سے بالاتر ہو کر دہشت گردی کے خلاف صف آرا ہونا چاہیے ،سیاست میں پتلی تماشا کھیلنے اور کھیلانے کے بجائے دہشت گردی سمیت دیگر بحرانوں کے خاتمے کیلئے سر جوڑکر مل بیٹھنا چاہئے

،اگر پوری قوم یکجہتی کے ساتھ سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گی تو دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائیاں سیکورٹی فورسز کے جوانوں کے عزم کو کبھی متزلزل سکیں گی نہ ہی عوام کو کوف زدہ کر پائیں گی ،ا فواج پا کستان دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کیلئے پر عزم ہے اوربہادر جوانوں کی قربانیاں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عزم کو مزید مضبوط کررہی ہیں ، انشا اللہ اس عزم اورقومی یکجہتی کے ساتھ ہی بہت جلد دہشت گردی کے ناسور کو ہمیشہ کیلئے جڑ سے اُکھاڑ پھنکاجائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں