2000 کے نوٹ بدلوانے کے یچھے کا راز کیا ہے؟ 51

بھٹکل کانگرئسی ھندو امیدوار شاندار جیت کے لئے بھٹکل مجلس اصلاح و تنظیم کو دلی مبارکباد

بھٹکل کانگرئسی  ھندو امیدوار شاندار جیت کے لئے بھٹکل مجلس اصلاح و  تنظیم کو دلی مبارکباد

نقاش نائطی
۔ +966562677707

ہمارا ملی اتحاد ہی ہمیں سیاسی استحکامیت بخش سکتا ہےکرناٹک انتخاب، بھٹکل اسمبلی حلقہ،کانگریسی جیت،بھٹکل مجلس اصلاح و تنظیم کو مبارک ہو ۔ یہ اس لئے کہ، ‘آپ’ پارٹی امیدوار سمیت جملہ 3 مسلم امیدوار میدان میں تھے جنہیں کل ملے 1،806 ووٹ جو کل پڑے مسلم ووٹ کا تناسب 0۔045 منہا بھی کیا جائے تو کل پڑے 40 ہزار ووٹ کا 99 اعشاریہ 55 فیصد مسلم ووٹ، کانگریس کے غیر مسلم امیدوار کے حق میں پول ہوئے ہیں۔ بھٹکل مجلس اصلاح و تنظیم کی ہدایت و رہنمائی کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے

، بھٹکل اسمبلی حلقہ کے تمام 60 ہزار ووٹروں نے, اور اس انتخاب میں پول ہوئے 40 ہزار ووٹروں نے، جو یکجہتی دکھائی ہے اسکی نظیر پورے بھارت کے کسی بھی مسلم اکثریتی علاقوں میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ہے۔ آزاد بھارت کے 540 پارلیمنٹ حلقوں میں سے کم و بیش 60 پارلیمنٹ حلقوں میں، مسلم اکثریت، ایک تہائی سے 60 فیصد رہنے کے باوجود،مسلم ووٹ مختلف سیکیولر سیاسی پارٹیوں میں بٹتے ہوئے، مسلم دشمن سنگھی پارٹی، مسلم حلقوں سے، آسانی سے جیت جایا کرتی ہے۔

حد اس وقت ہوتی ہے امت مسلمہ ھند کو، اخوت اتفاق یگانگت بھائی چارگی کا درس دینے والی، جمیعت العلماء ھند کے گڑھ دیوبند میں، دو تہائی ووٹر مسلم ہوتے ہوئے بھی، دیوبند کے مسلمانوں کی نااتفاقی کی وجہ سے، مسلم اکثریتی گڑھ والی اسمبلی سیٹ، مسلم دشمن سنگھی جیت جاتے ہیں۔ ایسے میں مجلس اصلاح و تنظیم بھٹکل کی، اپنے علاقے کے مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی، ملت اسلامیہ ھند کے لئے، ایک اچھی تمثیل ہے۔ عین انتخاب سے پہلے قال اللہ اور قال الرسول تقاریر سے مسلم ووٹرس پر دھاک بٹھاتے ہوئے

، ان سے اپنی مرضی کے ووٹروں کو جتایا نہیں جاسکتا ہے۔ بلکہ پورے سال کروڑوں کے رفاعی بجٹ سے،دل و جان سے عوام کی خدمت کرتے ہوئے، عوام کے دلوں میں ادارے کی عزت و تکریم بٹھائی جاتی ہے، تب جاکر پانچ سال بعد انتخاب کے وقت، مسلم عوام اپنے درمیان انکے صدا کام آنے والے ادارے کے اشارے پر، کسی کو بھی ووٹ دیتے پائے جاتے ہیں۔ اگر مجلس اصلاح و تنظیم ادارہ اپنے ووٹ ‘نوٹا’ کوبھی ڈالنے کی ہدایت کرے۔ تو یقیناً بھٹکل کے ووٹرس، اپنے ووٹ احتجاجاً نوٹا کے حق میں ڈالتے پائے جائیں گے۔ انشاءاللہ

سو سالہ رفاعی سیاسی سماجی ادارے مجلس اصلاح و تنظیم بھٹکل نے، اپنے سالانہ کروڑوں روپئیے والے رفاعی خدمات بجٹ سے، مسلسل رفاعی خدمات کرتے ہوئے، بھٹکل مسلم برادری میں جو مقام حاصل کیا ہے بھارت کے مسلم اکثریتی علاقوں کے مسلمانوں کو بھی اپنے درمیان،کسی ایسے رفاعی سیاسی سماجی ادارے کا قیام کرتے ہوئے،مسلم سیاسی سماجی خدمات کرتے ہوئے، اپنے اپنے علاقے کے ووٹروں میں ایسی عزت و تکریم حاصل کرنی چاہئیے

کہ مستقبل میں ان ان علاقوں کے مسلمانوں کو، کوئی بھی ایرا غیرا مختلف نام نہاد سیکیولر پارٹیوں کے وفادار مسلم لیڈران،بے وقوف بنا،مسلم ووٹ مختلف پارٹیوں بٹتے، بے وقعت نہیں بن پائیں گے۔ بلکہ اپنے یہاں کے رفاعی سیاسی سماجی خدمت گار ادارے کی ہدایت پر یکجٹ ہوکر کسی ایک امید وار کے حق میں، ووٹ ڈال سکیں گے۔ اور یقینا ایک تہائی اسمبلی و پارلیمنٹ حلقوں میں،ان ان علاقوں کےمسلم ووٹ، یکطرفہ پڑتے پائے جائیں تو یقینا بھارت کی انتخابی تاریخ میں انقلاب رونما ہوسکتا ہے۔
اب کی کرناٹک انتخاب 2023 میں، الحمد للہ کرناٹک کے مسلمانوں نے، ایک حد تک دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے، اپنے ووٹ دو سیکیولر پارٹیوں میں بٹنے کے بجائے، کانگریس کا ہاتھ مضبوط کرتے ہوئے، پورے بھارت لوگوں کو یکجٹ ہونے کا بہترین سبق دیتے ہوئے، حالیہ کرناٹک انتخاب میں پہلے سے دو سیکیولر پارٹیوں میں مسلم اقلیت نے اس انتخاب میں جہاں 88فیصد مسلم ووٹ کانگرئس کے حق میں استعمال کئے ہیں

وہیں جنتا دل سیکیولر کے مضبوط قلعہ سمجھے جانے والے حلقوں میں جنتا دل سیکیولر امیدوار مضبوط پوزیشن دیکھتے ہوئے ان علاقوں میں کانگرئس کو چھوڑ جنتا دل سیکیولر کو ووٹ دیتے۔ہوئے تقریباً 8فیصد ووٹ جنتا دل سیکیولرکو دئیے ہیں، وہیں پر دانستہ کہ غیر دانستہ غلطی سے یا قوم فروشوں کی وجہ سے بی جے پی اور دوسری سیاسی پارٹیوں کے حق میں دو دو فیصد مسلم ووٹ گئے ہیں۔اب کے بعد ہر انتخاب میں بی جے پی کے مقابلے کسی بھی سیکیولر ایک امیدوار کے درمیان براہ راستہ مقابلہ ہونا چاہئیے۔

کم از کم تمام مسلم ووٹ کانگریس یا کوئی مقامی سیکیولر پارٹی میں سے کسی ایک کو ہی انتخاب کرتے ہوئے ووٹ ڈالیں گے کسی حد صورت مسلم ووٹ بٹنے نہیں چاہئیے۔اسی طرح 2024 عام انتخاب کے وقت یکجہتی اتفاق بین المسلمین دکھاتے ہوئے، مسلم دشمن آرایس ایس، بی جی جے پی سے نبزد آزما ہونے کا گر کرناٹک کے مسلم ووٹر نے مسلم امہ ھند کوسکھا دیا ہے۔ انشاءاللہ بھارت کے مسلمان متحد ہوکر کانگریس یا اپنے اپنے علاقے کی کوئی مضبوط مقامی سیکیولر پارٹی کو ووٹ دیں گے

تو یقیناً 2024 مسلم دشمن سنگھی مودی یوگی ظلم و انبساط سے چھٹکار پانے کی امید رکھی جاسکتی ہے۔ یہاں ہم بھارت کے مسلمانوں کو، کرناٹک کے سیکیولر ذہن ھندو برادران وطن کا شکریہ ادا کرنانہیں بھولنا چاہئیے کہ وقت کے طاقت ور ترین سیاسی سنگھی رہنما،مہان مودی جی اور امیت شاہ کے کھل کر کھیلے گئے مسلم منافرتی کھیل بجرنگ بلی کو بھی پس پشت رکھتے ہوئے، سیکیولر طاقتوں کے ہاتھ مضبوطی کئے جائیں

یہ کرناٹک کے سیکیولر ھندو ووٹروں نے بتا دیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے مستقبل قریب میں ہونے والے مدھیہ پردیش،راجھستان اتراکھند اور تیلنگانہ ریاستی انتخاب اور 2024 کے پارلیمنٹ انتخاب میں، چمنستان بھارت کی 65 فیصد سیکیولر عوام، کیسے اپنے ووٹوں کا استعمال کرتے ہوئے، دیش کی معشیت کو تاراج کرنے والی منافرتی سنگھی طاقتوں کو سبق سکھاتے پائے جاتے ہیں یہ دیکھنا باقی ہے۔وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں