105

فیضانِ سلاسل نوشاہیہ گوجر خان

فیضانِ سلاسل نوشاہیہ گوجر خان

تحریر:ڈاکٹر عبدالرزاق سحر

اتنا تو کریں موج رہے دامنِ دریا
فیضان سلاسل کو چلانے کے لیے ہم
اشتیاق احمد نوشاہی سچیاری نے وہ کام کر دکھایا جو اس کو رہتی دنیا تک زندہ رکھے گا۔ فیضانِ نوشاہیہ پاک و ہند میں قلوب کو منور کرنے میں سرگرداں ہے اشتیاق لکھتے ہیں۔ ”سلسلہ نوشاہیہ کے عظیم روحانی پیشوا اور سلطنت فقر کے تاجدار اعظم حاجی محمد نوشہ گنج بخش ؓ کا شمار بر صغیر کے ان چند گنے چنے اولیائے کرام میں ہوتا ہے جہنوں نے سر زمین پاک و ہند پر عظمت ِ اسلام کے چراغ روشن کیے

اور کفر وضلالت میں گرے ہوئے کروڑوں انسانوں کے دلوں کو اسلام کی روشنی اور ایمان کی تا بندگی عطا فرمائی۔”پروفیسر تھامس آرنلڈ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ”حضرت نوشہ گنج بخش نے دو لاکھ ہندوئوں کو مسلمان کیا” آپ سے فیض یافتہ آپ کی اولاد خلفاء درویشوں اور مریدین نے رشد و ہدایت کی جو شمعیں روشن کیں ان سے سارا جہاں جگمگا رہا ہے اسی روشنی میں اشتیاق احمد نوشاہی سچیاری نے آنکھیں کھولیں علم و عرفان سے مالا مال ہوئے اور پھر یہ علوم دوسروں تک پہنچانے کا بیڑا اٹھایا اپنے اردگر روشن نوشاہیہ چراغوں کی تحقیق پر مبنی کتاب” گوجر خان میں فیضانِ نوشاہیہ” تحریر کی جو مجھے بذریعہ ڈاک سترہ مئی 2923کو موصول ہوئی ماشائاللہ خوبصورت سرورق کے

ساتھ ایک سو بانوے صفحات پر مشتمل ضخیم کتا ب ہے۔ اس میں سلسلہ نوشاہیہ سچیاریہ اور برقندازیہ کے اولیائ، بزرگان دین،علمائ، محدثین،مشائخ،حفّاظ ‘ شعرائ، ادباء سمیت ان سلاسل کو آگے بڑھانے والے درویشوں کو جن کا تعلق خطہئِ پوٹھوہار کی تحصیل گوجر خان سے ہے۔ان سب کا احاطہ کیا ہے۔

جس میں ان کی مختصر سوانح حیات، شجرہ نسب،کرامات و اشارات،خدمات و کمالات،زہدو ریاضت،دعوت تبلیغ اسلام،فیوض و برکات،تاریخ پیدائش و وفات،مزارات و تبرکات، رونقِ خانقاہ وعروسی تقریبات اور خلائف کو رقم کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ثابت کرتی ہے کہ اشتیاق احمد نوشاہی سچیاری نے بڑی محنت لگن شوق جذبے اور عقیدے کے ساتھ اس کو ترتیب دیا ہے۔تحقیق وہ بھی زمینی حقائق کے مطابق اسی علاقے کے لوگوں کے لیے ترتیب دینا اتنا آسان نہیں جتنا عام طور پر کوئی مضمون یا کالم تحریر کرنا یہاں اختلاف رائے

کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ ہو سکتا ہیوہ ایسی بات جانتا ہو جو راقم کے علم میں نہ آئی ہو اور اس نے سنی سنائی بات لکھ دی ہو۔ان تمام مسائل کے باوجود اس نازک موضوع پر قلم اٹھانا جوانمردی اور بڑی ہمت کا کام ہے۔ویسے بھی اشتیاق احمد نوشاہی سچیاری اس ملک کے مجاہد ہیں جہاں عسکری محازوں پر انہوں نے اپنا لوہامنوایا وہاں اس نازک موضوع پر بھی وہ کامیاب و کامران نظر آتے ہیں۔جتنا بھی ہو سکا انہوں نے معلومات کو اکٹھا کیا اور ایک کثیر تعداد (تقریبا?? چھپن) اولیاء نوشاہیہ کو چھوٹے سے علاقہ سے دریافت کیا بلکہ ان کے حالات زندگی اور فیضان زیر قلم لا کر عام لوگوں کے لیے ایک معلوماتی کتاب لکھی جس میں گوجر خان کا تاریخی نظریاتی علمی سماجی وثقافتی منظر نامہ بھی پیش پیش ہے۔

گوجر خان شعراء وادبائکا گڑھ ہے ان کے درمیان ایسی نایاب کتاب لکھ کر شائع کرنا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔اشتیاق احمد نوشاہی سچیاری حضرت میاں برکت حسین نوشاہی سچیاری کے نواسے ہونے کی وجہ سے بچپن سے ہی سلسلہ نوشاہیہ سے وابستہ تھے لیکن سترہ اکتوبر دوہزار میں صاحبزادہ حسن اختر نوشاہی بن حضرت سلطان محمد امین المعروف ابا جی سجادہ نشین حضرت پیر محمد سچیار ؑنوشہرہ شریف گجرات کے ہاتھ پر ہمراہ شریک حیات اپنے والد کے کہنے پر بیعت کی اور حقیقی و عملی طور پر سلسلہ نوشاپیہ سچیاریہ میں شامل ہو گئے۔آپ کو حضرت پیر محمد سچیار ؑ نوشاہی قادری کے دیدار کا شرف بھی حاصل ہے۔برقندازیہ سلسلہ سے بھی عقیدت کا رشتہ قائم ہے کیونکہ یہ دونوں ایک ہیں

۔حضرت سید حافظ قائم الدین برقنداز نوشاہی سچیاری سلسلہ نوشاہیہ سچیاریہ کے بانی حضرت پیر محمد سچیار المعروف کمبل پوش قادری نوشاہی کے مرید ہیں اور آپ سلسلہ نوشاہیہ کے بانی حضرت حاجی محمد نوشہ گنج بخش قادری ؓ کے مرید ہیں۔اشتیاق احمد نوشاہی سچیاری کی یہ کاوش میری نظر میں گوجر خان کے لوگوں پر احسان ہے اور ادب میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے ایک مکمل تحقیقی مکالہ ہے امید ہے

اس سے آج کے طالب علم اور آنے والی نسلیں مستفید ہوں گی۔ادب کے ساتھ فیضانی ادب ہر دور میں زمانے کی ضرورت رہا ہے اور رہے گا اور شمع سے شمع جلتی رہے گی اشتیاق احمد نوشاہی سچیاری نے اس کتاب کے لیے تقریبا?? اڑتیس کتابوں کا مطالعہ بھی کیا لوگوں سے مکالمے کیے خود درگاہوں پر حاضری دے کر مشاہدات کیے یہ کتاب آپ کی زندگی کا سرمایہ ہے۔صاحبزادہ نعیم اختر قمر مجدّدی لکھتے ہیں۔
صاحبِ علم و ہنر ہیں اشتیاق
پر توِ نورِ سحر ہیں اشتیاق
بے شبہ ہے ہر جگہ قحط الرجال
گوجرخاں میں ذوالقدر ہیں اشتیاق
کتاب کے مضامین پر نظر ڈالیں تو باکل سادہ اور عام فہم الفاظ میں ممدوحین کی عزّت اور تکریم کے لحاظ سے محاروں کو استعمال کیا گیا ہے۔کوئی ایسی بات نہیں کی گئی جو کسی بھی سلسلے یا عقیدہ کے بر خلاف ہو
یا کسی کی دل آزاری کا سبب ہو آپ کو حیرت ہوگی کہ میں نیجب کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی چلا گیا یہاں تک کہ کتاب ختم ہوگئی اور پڑھنے کا شوق ختم نہیں ہوا۔آپ بھی پڑھیے آپ کی روح اورایمان تازہ ہوجائیگایہ فیضان نوشاہیہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں