جو نظم کے حوالے سے ادبی حلقوں میں زیادہ سنائی دے رہے ہیں۔ڈاکڑ ارشد معراج کا نام بھی موجودہ عہد کے اہم ترین نظم گو شعراء میں شمار ہوتا ہے۔میری خوش نصیبی ہے کہ میں نے علمی حوالے سے آپ کے تجربات سے استفادہ بھی کیا ہے۔میں آپ کی شاعری کے ساتھ ساتھ آپ کی شخصیت سے بھی آگاہ ہوں۔آپ اپنوں اور غیروں دونوں کے ساتھ بہت شفقت کے ساتھ پیش آتے ہیں۔محبت آپ کے وجود کا حصہ ہے
اور یہی محبت آپ کی شاعری میں بھی دکھائی دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ نظم پر مشتمل کتاب”دوستوں کے درمیان” قارئین کے ذوق کی آبیاری کے لیے لے کر آئے ہیں۔اس کے علاوہ بھی آپ کی بہت ساری کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر پذیرائی بھی حاصل کر چکی ہیں۔آپ محقق بھی ہیں۔آپ کی ایک نظم”تیشہء کرب” سے انتخاب آپ کی نذر کرتا ہوں۔ تیش? کرب کندھوں پہ رکھے ہوئے کوہ کن بے اماں پھر رہے ہیں یہاں خواہشوں کے دیے سب دھواں ہو گئے وہ جو ماضی کے چمکیلے اوراق تھے ان پہ لکھے ہوئے گیت گم ہو گئے آپ کے فن کے بارے میں عہد ساز ادبی شخصیت جناب اقبال شمیم نے لکھا: ” ارشد معراج کی (نظمیں) تاریخی شعور اور انسانوں سے گہری درد مندی کے رویئے کی نشاندہی کرتی ہیں یہ رویہ ترقی پسندی اور روشن خیالی سے عبارت ہے، جبکہ اپنی ہیت میں یہ نظمیں تجزیئے کے بجائے خارج و داخل اور شعور و جذبہ کو ایک مرکب میں یکجا کرنے کی جدید تر ہنروری کی حامل ہیں۔
آپ کا اپنا اسلوب ہے اور جذبات کی عکاسی بالکل منفرد انداز میں کرتے ہیں۔ادب کے طلباء کے لیے یہ نظمیں ایک ایسا خزانہ ہے جس سے ہر کوئی استفادہ کر سکتا ہے۔تنہائی میں بیٹھ کر بزم سجائی جا سکتی ہے، ہجر کے کرب میں امید کے دیپ روشن کیے جا سکتے ہیں، مایوسی میں امید کے پھول کھلائے جا سکتے ہیں، غم کے اندھیروں میں خوشی کے اجالے بانٹے جا سکتے ہیں۔الغرض یہ نظمیں فراموش نہیں کی جا سکتیں۔یہ مجموعہ ایک ایسی عمارت ہے جس پر ہر طرح کے جواہرات نظر آئیں گے۔می ں آپ کے لیے بس ایک شعر کہوں گا: آپ جیسا نہیں اک دوست ہمارا کوئی آپ کو ہم نے بھلانا نہیں ارشد معراج