اس دور میں جینا مشکل ہے ! 51

عوام ہی سزا کاٹتے رہیں گے !

عوام ہی سزا کاٹتے رہیں گے !

پاکستان کی معیشت بیساکھیوں پر چل رہی ہے،لیکن حکمرانوںکو اشرافیہ کی ہی فکر کھائی جارہی ہے ،حکمران قیادت کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کو بہتر بنانا ہے تو اشرافیہ کو ساز گار ماحول دینا ہو گا ،اس با اثر اشرافیہ اور سیاستدانوں کے اثرو رسوخ کی وجہ سے ہی کاروبار میں اجارہ داری اور مافیا بازی کا روپ دھار چکی ہے، افسر شاہی اور سیاسی اشرافیہ سے تعلقات کی بنا پر بااثر افراد نہ صرف ناجائز مراعات حاصل کرتے ہیں، بلکہ کاروبار کے نام پر بینکوں سے اربوں روپے قرض لے کر معاف بھی کروالیتے ہیں،

یہ با اثر اشرافیہ بجلی ،گیس کے بل دیتی ہے نہ ہی بھاری ٹیکس ادا کرتے ہیں ، اس اشرافیہ کاا سارابوجھ عام عوام کو ہی اُٹھانا پڑ رہا ہے ، حکومت کو چاہئے کہ ہر با راشرافیہ کو ہی مراعات دینے کے بجائے عام شہریوں کو کاروبار کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرے ،تا کہ ملکی معیشت کا پہیہ رواں دواں اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے،لیکن حکومت کی ترجیحات میں اشرافیہ کے مد مقابل غریب عوام کہیں نظر نہیں آرہے ہیں ۔
پی ڈی ایم بڑے دعوئوں کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے کہ عوام کی زندگی میں تبدیلی لائیں گے ،عوام کو مہنگائی سے نجات دلائیںگے،

مگر ان کے سارے دعوئے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ،حکمران اتحاد پہلے دن سے ایک طرف اشرافیہ کی خدمت گزاری میں لگی ہے تو دوسری جانب آئی ایم ایف کی خشنودی میں سارا بوجھ عام آدمی پر دالے جارہی ہے، آئی ایم ایف کبھی نہیں کہا ہے کہ اشرافیہ کو چھوڑ کر عام آدمی پربھاری ٹیکس لگایا جائے ،مگر حکمران خود ہی اپنے حواریوں کو کوش رکھنے کیلئے سار ا بوجھ عام عوام پر ڈالے جارہے ہیں ، حکومت نے ایک بار پھرآئی ایم ایف کی آڑ میںنوجون کو پیش کیے گئے بجٹ کے اہم معاشی اہداف تبدیل کرتے ہوئے 215

ار ب روپے کے نئے ٹیکس لگادیے ہیں ،جبکہ 223ارب روپے کے ٹیکس پہلے ہی عائد کیے جاچکے ہیں،اس طرح مجموعی طور پر آئندہ مالی سال کیلئے 438ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کر دیئے گئے ہیں، حکومت ایک طرف نئے ٹیکسوں کی بھر مار کررہی ہے تو دوسری جانب دعوئے کیے جارہے ہیں کہ اس کا بوجھ عام آدمی پر نہیں پڑے گا،جبکہ سارابوجھ نا چاہتے ہوئے بھی عام کو ہی اُٹھانا پڑے گا۔
حکمران اتحاد کی تر جیحات میں عام عوام کہیں نہیں ہیں ،یہ ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بڑھکیں مارنے والے اب مل کر عوام کو ہی گھسیٹے چلے جارہے ہیں ،اتحادی قیادت کے کھانے اور دکھانے کے دانت الگ ہیں ، یہ ایک طرف ایک دوسرے کیلئے تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں تو دوسری جانب اپنے حصول اقتدار کی بساط بچھانیمیں لگے ہوئے ہیں ،یہ بڑے صنعت کاروں کو جہاں میثاق معیشت کی پیشکش کررہے ہیں ،وہیں ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دینے کی یقین دھانیاں بھی کروا رہے ہیں ،یہ میثاق جمہوریت کریں یا میثاق معیشت کریں ،یہ سبھی عوام کیلئے تو میثاق مصیبت ہی ثابت ہوں گے ،کیو نکہ یہ سارے میثاق ملک وعوام کیلئے نہیں اپنے حصول مفادات کیلئے ہی کیے جاتے ہیں ۔
اتحادی قیادت عوام کے آزمائے ہوئے ہیں ،لیکن انہیں عوام پر زبر دستی مسلط کرنے والے دوبارہ آزمارہے ہیں ،یہ حکومت اپنے ڈیڑھ سالہ دور اقتدار میں ماسوائے سیاسی انتقام اور ریکارڈ مہنگائی کرنے کے علاوہ ابھی تک کچھ بھی نہیں کرپائی ہے ، عوام مہنگائی کی چکی میں مسلسل پس رہے ہیں اور حکومت ٹیکس میں اضافہ کرکے مزید بوجھ بڑھائے جا رہی ہے ،حکمرانوں کا فرض بنتا ہے کہ حالات کتنے بھی ناساز رہیں ،

عوام کو رلیف فراہم کر نے کے اقدام کرے ،گزشتہ دنوں روس سے تیل بردار جہاز پہنچنے پر بڑی خوشخبریاں سنائی گئی تھیں کہ اب پٹرول سستا ہو جائے گا ،مہنگائی کے ستائے عوام بھی خوش فہمی کا شکار ہو گئے کہ انہیں کچھ رلیف ملے گا ،لیکن تا حال کوئی بھی رلیف نہیں دیا گیا ہے ،اب تو بڑی عید بھی سر پر آن پہنچی ہے ، لیکن حکومت بڑی عید پر رلیف کا تحفہ دینے کے بجائے پٹرولیم مصنوعات میں مزید اضافہ کرکے عوام کے گلے پر کھنڈی چھری چلانے کا ہی پروگرام بنارہی ہے ۔
اتحادی حکومت ایک طرف آئی ایم ایف کا نام لے کر عوام پر بوجھ ڈالتی جارہی ہے تو دوسری جانب مراعات یافتہ طبقے کو سہولیات فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی رہی ہے، اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے

کہ حکومت کی ترجیحات میں عوام اور ان کے مسائل کہیں بھی نہیں ہیں، بلکہ ان کی ساری توجہ ایسے لوگوں کو مراعات و سہولیات دینے پر خرچ ہورہی ہے، جو کہ پہلے ہی ان سارے مسائل اور پریشانیوں سے آزاد ہیں ،جبکہ عوام کے پلے کچھ رہا ہے نہ ہی ان کے پاس لٹانے اور گنوانے کیلئے کچھ باقی بچا ہے ،عوام زبر دستی مسلط کردہ قیادت کی نااہلیوں کی سزا کاٹ رہے ہیں اور اس وقت تک کاٹتے ہی رہیں گے ،جب تک کہ ان کے خلاف آواز حق بلند کرکے چھٹکارہ حاصل نہیں کریںگے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں