اس دور میں جینا مشکل ہے ! 56

آئوقرض ملنے پر خوشیاں منائیں !

آئوقرض ملنے پر خوشیاں منائیں !

پا کستان اور آئی ایم ایف کے در میان تین ارب ڈالر کا معاہدہ طے پا گیاہے،اس معاہدے کیلئے آئی ایم ایف نے حکمران اتحاد سے ناک سے لکیریں نکلوانے کے ساتھ گھٹنے بھی رگڑ وائے ہیں ،تاہم کئی ماہ کی کاوشوں، منت ،زاریوں اور سفارت کاریوں نے آخری وقت پر کام کردکھایا، اور ایک غیور قوم سال بھر کیلئے دیوالیہ ہونے سے بچ گئی ہے

،اس پر وزیراعظم شہباز شریف شادماں ہیں اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے پائوں زمین پر نہیں ٹک رہے ہیں،اس معاہدے کے عوام پر کتنے برے اثرات مرتب ہوں گے ،اس سے قطع نظر حکمران اتحاد کی خواہش ہے کہ آئوقرض ملنے پرخوشیاں منائیں ،دھمالیں ڈالیں کہ ایک بڑا کارنامہ سر انجام دیا گیاہے ۔
یہ بات کوئی مانے نہ مانے ،حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کر کے کا رنامہ تو سر انجام دیا ہے ، لیکن اس کارنامے کے بعد عوام کے ذہنوں میں اپنے لیے بہت سے سوالات گردش کر نے لگے ہیں ،عوام جاننا چاہتے ہیں کہ اس معاہدے کے بعد اُن کے ساتھ کیا ہو نے والا ہے ؟کیا مہنگائی کم ہو گی ، روز گار کے مواقع بڑھیں گے

اور کاروبارمیں آسانی ہو سکے گی ؟ عوام کے سارے سوالات کا ایک ہی جواب ہے کہ ایسا کچھ بھی ہو نے والا نہیں ہے ،ہر دور حکومت میں عوام پر کبھی قر ض کے معاہدوں کو واضح نہیں کیا گیا ،اس بار بھی کچھ نہیں بتایا جائے گا ، بلکہ آئی ایم ایف کی شرائط پر منوعن عمل کرتے ہوئے سارا بوجھ ایک بار پھر عام عوام پر ہی ڈال دیا جائے گا ،اس کا عندیہ معاہدے کی منطوری کے اعلان کے ساتھ ہی دیا جانے لگا ہے ۔
اتحادی حکومت کو عوام سے زیادہ اپنے اقتدار کی فکر کھائے جارہی تھی ،اس لیے سارا زور آئی ایم ایف معاہدے پر لگا یا گیا، اب معاہدہ ہو گیا ہے تو ساری تو جہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے پر لگائی جارہی ہے ،تاکہ قرض ملنے میں کوئی روکاوٹ نہ آنے پائے ،حکومت نے فوری طور پر فناس ایکٹ لاگو کرتے ہوئے رواں مالی سال کے بجٹ میں عائد کردہ مجموعی طور پر چار سو ارب روپے کے مزید ٹیکس لگا دیئے ہیں

،حکو مت ایک طرف بجلی ،گیس ،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کررہی ہے تو دوسری جانب آمدنی پر سپر ٹیکس بھی لگائے جارہی ہے ، حکومت عوام پر تو سارا بوجھ ڈال رہی ہے ،مگر اپنی عیاشیوں میں کمی لانے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ،یہ ملک مزیدحکومتی اخراجات کی عیاشیوں کا متحمل نہیںہو سکتا،

اس ملک میںآمدن بڑھانے کے ساتھ خرچے کم کیے بغیر معاشی ترقی تو درکنار اب ملکی معیشت کا چلنا بھی محال دکھائی دیے رہا ہے۔ہر دور اقتدار میں اپنے اخراجات میں کمی لانے اور خود انحصاری کی باتیں بہت کی جاتی ہیں ،مگر عملی طور پر اپنے خراجات میں کوئی کمی لائے جاتی ہے نہ ہی خود انحصاری کے کسی فارمولے پر عملدر آمد کے اقدامات کیے جاتے ہیں ، حکمرانوںکے پاس سب سے آسان راستہ کاسہ گری ہے ، اس کیلئے ناک سے لکریں ہی نکالیں نہیں جاتیں،بلکہ سجد ہ ریز ہونے سے بھی اجتناب نہیں کیا جاتا ہے

، اس ملک کے حکمران آئی ایم ایف کے بغیر چل ہی نہیں سکتے ہیں، یہ لاکھ بڑھکیں ماریں کہ آئی ایم ایف کی غلامی قبول نہیں کریں گے اور یہ طوق کشکول اتار پھینکیں گے، مگر زمینی حقائق بالکل ہی مختلف ہیں،ہمارے حکمرانوں کی نا اہلیوں نے ملکی معیشت کا قرضوں کے بوجھ تلے ایسا حال کر دیا ہے کہ قرضہ نہ ملے تو اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔
یہ کشکول توڑنے اور خود انحصاری کے سارے سیاسی نعرے عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے لگایا جاتے ہیں،اتحادی حکومت میں موجود ساری سیاسی قیادت پچھلی حکومت کے دور میں کہتے تھے کہ حکومت نے ملک کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں بیچ دیا ہے،ہم اقتدار میںآئے تو آئی ایم ایف کا کشکول توڑ دیں گے،

کسی صورت معاشی غلامی قبول نہیں کریں گے، مگر سب نے ہی دیکھا کہ اس غلامی کو نہ صرف تسلیم کیا گیا ،بلکہ تسلیم کرنے کے لئے اتنا زور لگایا گیا ہے کہ اگلی پچھلی تمام روایات ہی شرمندہ ہو گئی ہیں، عوام کو اب سمجھ آ جانی چاہئے کہ آئی ایم ایف کے خلاف باتیں صرف ان کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لئے کی جاتی ہیں، ان کا حقیقت سے کوئی تعلق ہوتاہے نہ ہی حکمران ایسی باتیں پوری نہ ہونے پر کبھی شر مندگی محسوس کرتے ہیں ۔
اتحادی حکومت کاآئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیاہے اور اتحادیوں نے قرض ملنے پر خوشیاں بھی منا لی ہو ں گی ، حکو مت کو اب چاہئے کہ اس معاہدے کا سارا بو جھ عوام پر ہی ڈالنے کے بجائے اپنے پر بھی کچھ بوجھ ڈال کر ہاتھ بٹائے اورعوم کو ریلیف دینے کی کوئی راہ نکالے ، حکومت اپنے اخراجات کم کرتے ہوئے کم از کم مہنگائی مافیا کو ہی لگام ڈالے،جو کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے یقینی سے پورا پورا فائدہ اٹھارہے ہیں،

،گر حکومت گڈ گورننس کو ہی یقینی بنالے تو اس معیشت میں رہ کر بھی عو ام کو مہنگائی کے عذاب سے کسی حدتک ریلیف دیا جا سکتاہے، اتحادی حکومت آئی ایم ایف معاہدے کو عوام کے لئے واقعی خوشخبری بنانا چاہتی ہے تو اس کے مثبت اثرات بھی سامنے لائے، اگر یہ گنگا الٹی ہی بہتی رہی تو یہ عوام کے ساتھ انتہائی زیادتی ہو گی اور اس زیادتی کا بدلہ عوام آئندہ انتخابات میں ضرور چکائیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں