اس دور میں جینا مشکل ہے ! 48

اشرافیہ ایجنڈے پر عوام کہیں نہیں !

اشرافیہ ایجنڈے پر عوام کہیں نہیں !

اس ملک کے عوام کی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے سیاسی اشرافیہ کبھی لندن تو کبھی دبئی جمع ہوتے رہتے ہیں،اس بار سیاسی اشرافیہ کی بیٹھک دبئی میں سجی تواس کا ایجنڈا، آئندہ عام انتخابات ، نگران سیٹ اپ کی تشکیل اور میثاق معیشت تھا،اس ایجنڈے پر دو بڑے سیاسی خاندانوں میں کہاں تک اتفاق رائے ہو سکا ہے

،یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ،لیکن ایک بات ضرورطے ہو گئی ہے کہ یہ دونوں خاندان ہی مقتدرہ سے مل کر آئندہ ملکی سیناریو کے سیاہ و سفید کا فیصلہ کریں گے،جبکہ ان اہم فیصلوں میں عوام کبھی شامل ہوئے نہ ہی فیصلہ سازی میں کہیںعوام دکھائی دیے رہے ہیں۔اس ملک کے عوام کی بد قسمتی رہی ہے کہ بیرون ملک بننے والے سارے پلانوں کی عملی داری اندرون ملک کی جاتی رہی ہے ،اس سے قبل ایک لندن پلان بنایا گیا تھا

، اس پلان پر عمل کرتے ہوئے پہلے ایک منتخب حکومت کو ہٹایا گیا ،بعد ازں پی ٹی آئی اوراس کی قیادت کو مائنس کرکے انتخابات کا میدان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت علما اسلام (ف) کے حوالے کیا جارہا ہے،لندن پلان کی کا میابی کے بعداب دبئی پلان پر کام شروع کر دیا گیا ہے ،اس حوالے سے دبئی میں بیٹھکیں سجائی جارہی ہیں ،اقتدار کی مل بیٹھ کربندر بانٹ کی جارہی ہے ۔
اس بار دبئی اجلاس کا مقصد ہی نئے ممکنہ سیاسی منظرنامے میں اقتدار کی تقسیم پر اتفاق رائے پیدا کرنا تھا

،لیکن اس سے سب ہی کے اپنے اپنے مفادات جڑے تھے ،اس مفادات کے ٹکرائو میں فوری طور پر اتفاق رائے کا ہونا ممکن نہیں تھا ، آصف علی زرداری اپنے صاحبزادے بلاول زرداری کو آئندہ پاکستان کا وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں، جبکہ میاں نواز شریف خود چوتھی بار وزیراعظم بننے کی خواہش مند ہیںایک طرف وزیر اعظم کی دوڑ ہے تو دوسری جانب سیٹ ایڈ جسمنٹ کے معاملات ہیں، آصف علی زرداری پنجاب میں پیپلز پارٹی کے لیے چالیس فی صد نشستوں کا مطالبہ کررہے ہیں ،جبکہ مسلم لیگ (ن) چالیس کیا بیس فی صد نشستیں دینے کو بھی تیار نہیں ہے، دونوں پارٹی کے مفادات ہر جگہ ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں اور کوئی ایک بھی دوسرے کے لیے سرنڈر ہونے کو تیار دکھائی نہیں دیے رہا ہے۔
یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ سیاست میں بلا مفاد کبھی اتفاق رائے پیدا نہیں ہو تا ہے ،ایک دوسرے کو کچھ دینا اور اس کے بدلے کچھ لینا پڑتا ہے ،اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ دبئی اکٹھ میں دونوں پارٹیوں کے درمیان کسی معاملے پر بھی اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکاہے ،اس لیے آصف علی زرداری ناراض ہو کر پاکستان واپس آگئے ہیں ،جبکہ میاں نواز شریف نے دبئی میں ہی اپنا قیام بڑھا لیا ہے،یہ دونوں پرانے سیاسی کھلاڑی ہیں

اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیاسی معاملات کیسے حل کر نے ہیں ،اس لیے ایک دوسرے کو وقت دیا جا رہاہے ،یہ دونوں ہی جانتے ہیں کہ معاملات مل بیٹھ کرہی طے ہونے ہیں ،لیکن اس وقت کو ئی اپنے حصول مفاد سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے ،اس بدلتی صورتحال میں ایسا لگنے لگا ہے کہ آئندہ انتخابات جب بھی ہوں گے، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے، جبکہ عوام ان دونوں پارٹیوں کو ہی دھوبی پٹکا مارنے کے موڈ میں دکھائی دیے ر ہے ہیں۔
ہماری سیاسی قیادت کے غیر جمہوری روئیوں نے ہی ملک کو انتہائی مخدوش صورتحال سے دوچار کررکھاہے ،اہل سیاست جمہور اور جمہوری روایات کی پاسداری کی باتیں تو بہت کرتے ہیں ،لیکن اس پر عمل کرنے کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں

،یہ جمہور اور جمہوریت صرف بات چیت تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں ،جبکہ عملی طور پر سیاست سے جمہور اور جہوریت کو نکال باہر کیاگیا ہے ، اس ملک کے اہل سیاست مقتدرہ سے مل کر جتنا مرضی لندن کے بعد دبئی پلان تیار کرتے رہیں،یہ اس وقت تک مکمل کامیاب نہیں ہو سکے گا ،جب تک کہ اس میں جمہور کی آواز کو شامل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ایسے پلان سے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لایا جاسکے گا۔
یہ پا کستان کی سیاسی بد قسمتی رہی ہے کہ یہاں پر سیاسی قو توں نے ملک وعوام کو خوشحال بنانے کے بجائے اپنے خاندان ،دوستوں اور عزیز و اقارب کو ہی نوازا ہے ، اور حصول اقتدار کیلئے بھی عوام کے بجائے مقتدر قوتوں کی جانب ہی دیکھتے رہے ہیں ،اس بنیاد پر ہی عوام ان سے انتہائی مایوس ہوتے چلے گئے ہیں اور اب یہ سوال ہر خاص و عام کی زبان پر ہے کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جس میں جمہور مسائل کی آگ میں جل رہے ہیں اور حکمرانوں کو اپنے حصول مفا دات کے سوا کسی کی کوئی فکر ہی نہیں ہے ، سیاسی اشرافیہ کے لندن اور دبئی پلان کے ایجنڈے پرحصول اقتدار اور اس کی بندر بانٹ ہے ، اس ایجنڈے پرعوام کہیں دکھائی ہی نہیں دیے رہے ہیں!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں