قربانیوں سے دہشت گردی کے خلاف کا میابیاں! 96

ایسا کب تک چلے گا !

ایسا کب تک چلے گا !

پا کستانی عوام عرصہ دراز سے شفاف انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں ،مگر ہر بار ان کے مطالبے کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ،اس ملک میں ویسے کے کئی بار انتخابات ہو ئے ہیں، متعدد بار حکومتیں بھی تبدیل کی جاتی رہی ہیں ،ہر بار عوام سے وعدے کرکے وعدہ خلافیاں بھی ہوتی ر ہی ہیں، لیکن عوام کو کبھی احتساب کا موقع نہیں دیا گیا ،عوام کوحق رائے دہی دینے کے بجائے ان پر بند کمروںکے فیصلے ہی مسلط کیے جاتے رہے ہیں، عوام جب تک بند کمروں اور غیر ممالک میں بیٹھ کر پاکستان کے فیصلے کرنے والوں کو پر زور مسترد نہیں کریں گے، پا کستان کبھی استحکام کی راہ پر گامزن نہیں ہو پائے گا۔
پی ڈی ایم اقتدار میں عوام کی مشکلات کا تدارک کرنے اور عوام کو رلیف دینے کے وعدے کے ساتھ آئے تھے ،مگر چودہ ماہ گزارنے کے بعد سارے دعوئے دھر کے دھرے ہی رہ گئے ہیں ، اتحادی عوام کی مشکلات کا تدارک کر پائے نہ ہی ملک کو در پیش بحرانوں سے نکال پائے ہیں ، اس کے با وجود سب اچھا ہے

اور سب اچھا ہو جائے گا ، اس کی ہی چاروں طرف گردان سنائی دیتی ہے ،ملک کی ترقی کا پیمانہ عوام کی خوشحالی، فی کس آمدنی اور ان کو دستیاب صحت تعلیم اور روزگار کی سہولتیں ہوتی ہیں ،یہ ساری چیزیں عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں، حکومت عوامی مسائل کا تدارک کرنے کے بجائے اپناپورا زور اس امر پر لگارہی ہے کہ کچھ دیکھے بغیر ہی لوگ ان کے ڈھول بجائیں،ان کے حق میں نعرے لگائیں،اس کیلئے میڈیا کنٹرول پا لیسی کے تحت مختلف تشہیری مہم چلائی جارہی ہیں۔
اتحادی اپنے مخالفین کے خلاف مہم جوئی کو اپنی بڑی کامیابی تصور کر رہے ہیں، لیکن یہ ان کی کامیابی نہیں ہے،

اگر موجودہ حکمران اتحاد سارے حربے استعمال کر کے بھی الگ یا مل کر بھی جیت نہ سکے تو آئندہ آنے والے انہیں ہی مود الزام ٹھرا رہے ہوں گے کہ یہ مزید قرضے لے کر ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کرگئے ہیں ،اس سے قبل تیس سال تک مسلم لیگ (ن ) اور پی پی پی باری باری ایسا ہی کچھ ایک دوسرے کے بارے کہتے رہے ہیں، قوم جھوٹی بیان بازیاں نہیں، حقائق پر مبنی کا ر گزاری دیکھنا چاہتی ہے ،

عوام چاہتے ہیں کہ انہیں زندگی میں سکھ کا سانس لینے کے مواقع فراہم کیے جائیں، یہ اتحادی جو ایک بار پھر ملک کو دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بنانے کا دعویٰ کر رہے ہیں، یہ اپنے دور اقتدار میں اسے دنیا کی 40 ویں معیشت کیوں نہ بنا سکے ، ہر بین الاقوامی جائزہ ملک کے معاشی نظام کا پول کھول رہا ہوتا ہے ،لیکن ان حکمرانوں کے کانوں پر پہلے کبھی کوئی جوں رینگی نہ ہی اب رینگ رہی ہے۔
یہ سارے ہی عوام کے آزمائے ہوئے ہیں ، لیکن ان آزمائے ہوئے لوگوں کو ہی بار بار عوام پر مسلط کیا جارہا ہے ، یہ آزمائے ہوئے وہی پرانی باتیں ہی دہرائے جارہے ہیں، وزیراعظم نے ایک بار پھر وہی پرانی خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اگر تمام ادارے بیس سال تک اپنے دائروں میں رہتے ہوئے کام کرتے رہیں تو کامیابی پاکستان کے قدم چومے گی، اگر آئینی طور پر دیکھا جائے تو ہر ادارے کو اپنے دائرے میں رکھنا حکومت کا ہی کام ہوتا ہے ،لیکن اس کے لیے اسے سب سے پہلے خود اپنے دائرے میں رہنا پڑتا ہے،

جبکہ یہاں تصورت حال ایسی ہے کہ حکمران کبھی اپنے دائرے میں رہتے ہی نہیں ،وہ دوسروں کے بنائے ہوئے دائروںمیں کھیل رہے ہوتے ہیں،یہ لوگ جب ایسا کریں گے تو کامیابی پاکستان کے قدم کیونکر چومے گی۔
حکمرانوں کے ایسے پراپیگنڈے سے قطع نظر عوام کو اب سمجھنا ہو گا کہ اس طرح کا پروپیگنڈہ پہلی بار نہیں ہو رہا ہے ، یہ آزمائے ہوئے لوگ اپنی پرانی روش پر چلتے ہوئے عوام کو ایک بار پھر بے وقف بنانے کی کوشش کررہے ہیں ،لیکن اس بار عوام دھونس و دھاندلی قبول کریں گے نہ ہی بند کمروں کے فیصلے خاموشی سے قبول کر یں گے ،عوام چاہتے ہیں کہ انہیں آزادانہ حق رائے دہی دیا جائے اور وہ جو فیصلہ کریں ،اسے قبول بھی کیا جائے ،لیکن کچھ پس پردہ قوتیں بضد ہیں کہ اُن کے فیصلے مانیں جائیں

،کیو نکہ ان کے فیصلے سب سے بہتر ہوتے ہیں ،ائے کاش کہ ہم اپنی ذات سے نکل کر عوام کے مفاد میں سو چنے لگیں ، یہاں سب ہی عوام کی باتیں بہت کرتے ہیں ،عوام کو ہی طاقت کا سر چشمہ بھی کہتے ہیں ،مگر جب عوام کو فیصلہ سازی میں شامل کر نے کی بات آتی ہے توعوام کو ہی کھڈے لائین لگادیا جاتا ہے،عوام اپنی حق تلفی پر سراپہ احتجاج ہیں اور با آواز بلندپو چھ رہے ہیں کہ ایسا کون کررہا ہے، مگر انہیں پتہ ہی نہیں چل رہا ہے کہ یہاں فیصلے کون کررہا ہے اور کیا سوچ کر کر رہا ہے اوریہ سب کچھ ایسے ہی کب تک چلتا رہے گا!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں