قربانیوں سے دہشت گردی کے خلاف کا میابیاں! 42

عام انتخابات پر بے یقینی کیسی !

عام انتخابات پر بے یقینی کیسی !

اتحادی حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کی تاریخ جوں جوں نزدیک آ رہی ہے، عام انتخابات کے متعلق غیریقینی بڑھتی ہی جا رہی ہے،اس غیر معمولی صورتحال میں وزیراعظم شہبازشریف اور پیپلزپارٹی قیادت آئینی مدت کے اختتام پر اقتدار چھوڑنے کی یقین دہانیاں کرا رہے ہیں، لیکن یہ یقین دہانیا ں اعتبار ہی حاصل نہیں کر پا رہی ہیں، اس نااعتباری کاسبب ایک طرف مولانا فضل الرحمن اور میاں نوازشریف کی جانب سے کچھ اہم امور پر اپنے آئندہ کردار کی وضاحت کانہ ہونا تو دوسری جانب فیصلہ سازوں کے اشاروں کا نہ ملنا ہے ، اس کی وجہ سے ابھی تک انتخابی عمل بے یقینی کا ہی شکار دکھائی دیے رہاہے۔
دنیا بھر میں جو بھی ریاستیں آئین کے تابع ہوتی ہیں، وہاں کسی معاملے میں اگر مگرکی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے، اگرآئین میں لکھا گیا ہے کہ اسمبلی اپنی پانچ سال کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد تحلیل ہوگی اور اس تحلیل کے نوے روز کے اندر عام انتخابات کرائے جائیں گے تو مدت پوری ہونے کے بعد ایسا ہی ہوتا ہے،یہ بحث نہیں چھیڑی جاتی کہ کون انتخابات کی تاریخ دے گااور کون انتخابات کرائے گا ؟

یہ سب کچھ آئین میں طے ہے ،اس کے باوجود آئین و قانون سے ماورا قدامات کے راستے تلاش کیے جاتے ہیں ، کیو نکہ یہاں سیاسی جماعتیں جمہوری ڈھانچے پر استوار ہی نہیں ہیں، سیاسی قیادت عوام کی حمایت کے بجائے غیر سیاسی قوتوں کا سہارا لینا پسند کرتے ہیںاور انہیں کے اشاروں پر چلتے ہیں، اہل سیاست کی نظر میں طاقت کا سر چشمہ عوام کے بجائے مقتدر قوتیں بن گئی ہیں ،جو کہ اقتدار میں لانے اور اقتدار سے نکالنے پر دست رست رکھتی ہیں۔ملک میں انتخابات بر وقت ہوتے ہیں کہ نہیں

، لیکن پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے اپنی صف بندیا شروع کر دی ہیں ، ایک طرف اقتدار کی بند بانٹ پر مشاورت ہو رہی ہے تو دوسری جانب بند کمروں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنی وفاداری و فر ما برداری کی یقین دھانیاں کرائی جارہی ہیں ،اس کے ساتھ ایک دوسرے سے شکووں شکایت کاڈرامہ بھی جاری ہے، اس کی ایک ہلکی سی جھلک گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان نظر بھی آئی ، تاہم جلد ہی ساری لڑائی معاف کرو اپنے دل کو صاف کروکے فارمولے پر عمل کر لیا گیا ہے ،اس کھیل کے دونوں ہی پرانے کھلاڑی ہیں اور جانتے ہیں کہ آپس کی لڑائی میں کو ئی تیسر فائدہ اُٹھا جائے گا ۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)قیادت آئندہ اقتدار کے معاملات مشاورت سے طے کرنا چاہتے ہیں ،لیکن دونوں کے ہی مفادات کے ٹکرائو کے باعث معاملات طے نہیں ہو پارہے ہیں ، ایک طرف اصف علی زرداری بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمی کی مسند پر دیکھنا چاہتے ہیں تو دوسری جانب وزارت عظمی کیلئے میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے ،جبکہ اقتدار کا ہما سر پر بٹھانے والی قوتوں کاقرعہ فال ایک بار پھر شہباز شریف کے ہی نام نکلنے کے آثار دکھائی دیے رہے ہیں ، تاہم قبولیت کے پیمانے پر کون پورا اُترے گا، یہ آئندہ عام انتخابات کے بعد ہی پتہ چلے گا ،لیکن اس حصول اقتدار کی دوڑ میں سب ہی ایک دوسرے کو مات دینے کیلئے اپنا پورا زور لگا رہے ہیں۔
انتخابات جب بھی ہوں گے ،پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں اپنے اپنے جھنڈے تلے انتخابات میں حصہ لیں گی ،تاہم سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،اس انتظام کے باوجود شفاف انتخابات کی صورت میں بڑے بڑے بت پاش ہونے کا احتمال ہے،اگر انتخابات متنازع ہوئے تو دال پھر سے جوتیوں میںہی بٹے گی اور سیاسی عدم استحکام کو ہوا ملے گی،ملک میں سیاسی استحکام لانے کیلئے ضروری ہے کہ سیاست سے کسی کو بے دخل کیا جائے نہ ہی انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جائے

،ساری سیاسی جماعتوں کو برابری کی بنیاد پر انتخابات میں شامل ہونے کا بھر پورموقع ملنا چاہئے، انتخابات شفاف ہوئے تو کوئی انگلی اُٹھا پائے گا نہ ہی دھاندلی کا لزام لگا پائے گا ،اگر ایک بار پھر وہی پرانی روایت دھرائی گئی تو عوام کا ایسا ریکشن آئے گا کہ اس کا سامنا کرنا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں ہو گا۔
اس وقت اتحادی حکومت کو سیاسی عدم استحکام کی فکر ہے نہ ہی عوام کی بد حالی کا کچھ خیال ہے ،حکومتی وزراء وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ مل کر آئی ایم ایف معاہدے پر لڈیاںڈال رہے ہیں، حکومت اسے اپنے لیے بڑی کا میابی اورآنے والی حکومت کیلئے وبال جان سمجھ رہی ہے ، جبکہ اس کا سارا بوجھ اتحادیوں کو ہی اُٹھانا پڑے گا ، اس صورتحال میں الیکشن کا شور و غوغا تو بلند ہوتا رہے گا، لیکن انتخابات کا بر وقت انعقادمشکوک دکھائی دیتا ہے، انتخابات کب ہوں گے، یہ سب کچھ واضح ہوتے ہوئے

بھی کچھ واضع نہیں ہو پا رہا ہے، عام انتخابات کا انعقاد مقتدرہ کے اشارے کا منتظر ہے ، وہ جب چاہیں گے ،عا م انتخابات ہوں گے ،الیکشن کمیشن بھی اُدھر ہی نظر جمائے اور کان لگائے بیٹھاہے، تاہم انتخابات جب بھی ہوئے اور نتائج عوام کی توقعات کے برعکس آئے تو ایساگھمسان کا رن پڑے گا کہ منصوبہ سازوں کی سْٹّی ہی گْم ہوجائے گی، اللہ تعالیٰ پاکستان کو ایسی ہرآزمائش سے محفوظ ہی رکھے ،آمین!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں