Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

مہنگائی رے مہنگائی ،عوام کی دہائی!

قربانیوں سے دہشت گردی کے خلاف کا میابیاں!

قربانیوں سے دہشت گردی کے خلاف کا میابیاں!

مہنگائی رے مہنگائی ،عوام کی دہائی!

حکمران اتحاد کا پہلے آئی ایم ایف معاہدے پر زور تھا اور اب ان کے احکامات پر عملدرآمد کا شور ہے ،وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے بجلی کے ایک یونٹ پر مجبوراً پانچ روپے بڑھائے جارہے ہیں، جبکہ گیس کے نرخوں میں اضافہ کرنا بھی ضروری ہے،ہمارے حکمران اس قدر ڈرپوک ہیں کہ آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی ہمیں بھی ضرورت ہے، حکمران آئی ایم ایف کی آڑ میں کب تک عوام پر ہی بوجھ بڑھاتے رہیں گے،حکومت نے کفایت شعاری کے جو منصوبے بنائے تھے، مقتدر طبقوں کی مراعات ختم کرنے کے جو وعدے کئے تھے،

وقت کا تقاضا ہے کہ انہیں پورا کرکے عوام کو فاقہ کشی سے بچایا جائے،لیکن حکمران مہنگائی رے مہنگائی ،عوام کی دہائی بھی سننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔اس حقیقت کا اتحادی قیادت کو ادراک ہونا چاہیے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے معاہدے اور دوسری اقتصادی مالیاتی پالیسیوں کے نتیجہ میں عوام پر جس بے مہابا انداز میں مہنگائی مسلط کی جا چکی ہے ، اس کے ہوتے ہوئے عوام ان جماعتوں کے لئے اپنے ووٹ کے

ذریعے کلمہ خیر ادا کرنے پر ہرگز آمادہ نہیں ہوں گے،وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تو پٹرولیم نرخوں میں سات سے 9 روپے فی لٹر کمی کا اعلان کر کے اپنے تئیں بڑا تیر مار ا ہے، مگر بجلی اور گیس کے نرخوں میں جس شرح کے ساتھ اضافہ کر کے مہنگائی کے نئے جھکڑ چلانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے، اس سے عوام کو پٹرولیم نرخوں میں کمی کی صورت میں تھوڑا بہت ریلیف ملنے کے ثمرات بھی غارت ہو تے دکھائی دیے رہے ہیں۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ حکومت ایک طرف پٹرولیم میں ریلیف دے کر دوسری جانب بجلی ،گیس میں رقم اینٹھ رہی ہے، گیس پاکستان کی اپنی پیداوار ہے اور اس اپنی ہی چیز کی قیمت بڑھتی جارہی ہے، اسے بین الاقوامی مارکیٹ کے ریٹ پر لایا جارہا ہے، پاکستانی زمین کا قدرتی تحفہ پاکستان کے لیے ہے ، اسے غیر ملکی اداروں سے تلاش کرواکے ان کے مطابق ریٹ مقرر کرنا، پاکستانی عوام کے ساتھ سرا سر نا انصافی ہے،

اگر ایسا ہی کر نا ہے توآئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کار پوریشن بند ہی کر دینا چاہیے، ایک اندازے کے مطابق بجلی کے نرخوں میں اضافہ سے عوام سے پانچ سو ارب روپے اضافی وصول کیے جائیں گے، بجلی پہلے ہی کون سی سستی اور دستیاب ہے،اس کے باوجود لوگوں سے بھاری بل وصول کیے جارہے ہیں،کوئی پو چھنے والا ہے نہ ہی عوام کے مسائل کا تداک کر نے والا کوئی دکھائی دیتا ہے ، یہاں سب ہی عوامی مسائل کو بھول بھال کر اقتدار کی بند بانٹ میں لگے ہو ئے ہیں۔
حکمران اتحاد عوام کو رلیف دینے کے دعوئوں کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے ،لیکن اپنے ڈیڑھ سالہ دور اقتدار میں عوام کو ریکارڈ مہنگائی دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیے پائے ہیں ،اس کے باوجود وزیر اعظم بار بار کہہ رہے ہیں کہ عوام نے دوبارہ منتخب کرایا تو آئی اے ایف کے ساتھ مل کر ملک کو ترقی دیں گے،

یہ کیسی ترقی ہو گی کہ جس میں عوام ہی پستے چلے جائیں گے اور حکمراں طبقہ پر تعیش زندگی گزاریں گے،حکمرانوں کی ذاتی زندگی پر تو عوام نے کبھی اعتراض کیا ہی نہیں ہے ،لیکن سرکاری خرچ پر جو عیش کیے جارہے ہیں،اس پر زیادہ اعتراض ہے،اگر حکمران اپنی مرعات اور عیاشیاں بند کر دیں تو عوام پر بہت سارے شعبوں میں ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی نہ پڑے،لیکن حکمران مر عات چھوڑنے کیلئے تیار ہیں نہ ہی اپنی عیاشیوں میں کوئی کمی لارہے ہین ،اس کے باوجود عوام کی ہی رٹ لگاتے ہیں، یہ کیسے حکمران ہیں کہ انہیں عوام کی فکر ہے نہ ہی عوام کا احساس ہے ،اس کے باوجود کیسے توقع رکھتے ہیں کہ عوام آزمائے ہوئے ہی کے حق میں فیصلہ دیں گے۔
عوام سب کچھ جانتے ہیں

،مگر ابھی تک کچھ کر نہیں پارہے ہیں ، عوام منتظر ہیں کہ کب انہیںحساب اور احتساب کر نے کا موقع دیا جاتا ہے ،اہل سیاست بھی آگاہ ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ صبر لبر یز ہو چکا ہے ،اس لیے چور سپاہی کے کھیل میں ہی اپناوقت گزارکرجانے کا ارادہ رکھتے ہیں،حکمراتحاد نے جس برق رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو راستے ہٹا یا اور خود کو سارے مقدمات سے بچایا ہے ،اس کے باعث ہی حکومت اپنا کام ٹھیک طرح سر انجام دے پائی نہ ہی اپوزیشن کبھی اپنا اصل رنگ روپ دکھاپائی ہے، اِس لئے ہمیشہ سے ہی سب کی حیثیت پانی کے بلبلے جیسی رہی ہے اورشاید آئندہ بھی ایسے ہی رہے گی،کیو نکہ فیصلے عوام کی عدالت میں نہیں، کہیں اور ہی ہو نے ہیں ،جبکہ بیچارے عوام کی قسمت میں توبحران، مہنگائی اور مسائل کی دلدل میں پڑے رہنا ہی لکھ دیا گیاہے،مہنگائی رے مہنگائی کی دہائی کوئی سننے والا ہے نہ ہی کوئی تدارک کر نے والا ، یہاں سب ہی اپنے مفادات میں عوام کو قربان کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔

Exit mobile version