یہ عوام سے ہی قربانی مانگتے ہیں!
اس ملک کے ایوان اقتدار میں آنے والے سبھی دعوئیدار ہوتے ہیں کہ عوام پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا جائے گا ، عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے بہت سارے اقدامات کیے جائیں گے، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد تمام ترمشکل فیصلے عوام مخالف ہی کیے جاتے ہیں، اگر مشکل اور سخت فیصلوں کا نشانہ عوام کو ہی بنانا ہے تو یہ کام کسی سے بھی کروایا جاسکتا ہے، اس کے لیے آزمائے کو مسلط کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
ہمارے وفاقی وزیر خزانہ کہنے کو بڑے ماہرے معیشت ہیں، لیکن انہوں نے اب تک معیشت سدھارنے کے نام پر جو بھی اقدامات کیے ہیں، انھیں دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس معیشت سدھارنے اور عوام کو رلیف دینے کا کو ئی پلان ہے نہ ہی کوئی نئی منصوبہ سازی کی اہلیت رکھتے ہیں ،اتحادی حکومت ڈنگ ٹپائو پروگرام کے تحت آئی ایم ایف سے قر ض لے کر عوام پر بوجھ ڈالنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر پائی ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت ہماری معیشت جس بحرانی کیفیت سے گزر رہی ہے، اس میں حکومت پر بہت دبائو رہاہے ، اس صورتحال میں عوام کو بہت زیادہ ریلیف فراہم نہیں کیا جاسکتا تھا،لیکن حکومت کی طرف سے جو اقدامات سامنے آرہے ہیں، ان سے تو مراعات یافتہ طبقہ ہی ایک بار پھر مستفید ہوتا دکھائی دے رہا ہے
اور عوام کی مشکلات بڑھتی نظر آرہی ہیں، وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اتحادی حکومت کے اقتدارمیں آنے پر دو ہی راستے تھے، پہلاراستہ تھاکہ الیکشن کرائیں اورمعیشت کوٹوٹ پھوٹ کاشکارہونے کے لیے چھوڑدیں، جبکہ دوسرا راستہ تھاکہ پہلے اقتصادی چیلنجز سے نمٹا جائے،ہم نے پاکستان کو معاشی دلدل سے بچانے کا انتخاب کیا اور پاکستان کو پہلے سامنے رکھاہے۔
پا کستان کو ہی سب سے پہلے سامنے رکھنا چاہئے ، پا کستان ہے تو سب کچھ ہے ،پا کستان نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے
،لیکن پا کستان کے نام پر سیاست کرتے رہنا بھی درست نہیں ہے ،اس ملک کے حکمران زبانی کلامی ملک پر سیاست قر بان کر نے کی باتیں تو بہت کرتے ہیں ،لیکن عملی طور پر اپنی سیاست کیلئے سب کچھ ہی دائو پر لگانے کیلئے تیار نظر آتے ہیں،ملک سیاسی و معاشی عد م استحکام کا شکار ہے ، لیکن کوئی استحکام لانے کیلئے فکر مند ہے نہ ہی بوجھ باٹنے کیلئے تیار ہے ،ایک دوسرے کو ہی قومی فریضہ جانتے ہوئے
بوجھ باٹنے کی تر غیب دی جارہی ہے ،جبکہ اس ملک میں متمول طبقات بے حسی کے جس درجے پر فائز ہیں ،وہاں انھیں قومی فرائض کی کوئی پروا ہی نہیں ہے، یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ متمول طبقے کو ملنے والی مراعات اور سہولیات کو مکمل طور پر ختم نہیں کرسکتی تو اس میں واضح کمی ضرور کرے،مگر حکومت متمول طبقے کی خوشنودی میں سارا بوجھ عام آدمی پر ہی ڈالے جارہی ہے۔
ہر دور حکومت میں اپنے حواریوں کو ہی راضی رکھا جاتا رہا ہے ،اس اتحادی دور حکومت میں تو سب سے زیادہ اپنے حواریوں کاہی خیال رکھا گیا ہے ، ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھا گیا ،ایک دوسرے کو ہی خوب نوازا گیا ہے، اتحاد حکمرانوں نے مل کرجہاں اقتدار کے مزے لوٹے ،وہیں ساری مر عات سے بھی خوب استفادہ کیا جاتا رہا ہے، ایک طرف حکمران اتحاد کی اقتدار و مرعات کی بند بانٹ تو دوسر جانب عوام پر آئی ایم ایف کے قر ضے کا ایسا بوجھ کہ جس کے ہولناک نتائج کا تصور ہی دہلا دینے کے لیے کافی ہے،
اس قر ض کا سارا بوجھ عام مزدوروں اور متوسط طبقے پر ڈال دیا گیا ہے،جبکہ اہل سیاست سے لے کر سر مایہ دار تک ان خراب حالات کا بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں،انہیں کوئی پو چھنے والا ہے نہ ہی ٹو کنے والا دکھا دیے رہا ہے ،کیو نکہ اس میں حمام سارے ہی گندے اور ننگے ایک دوسرے کے کانے ہیں۔
یہ صورت حال تبدیلی کیلئے آوازبلند کرنے اور آزاد جدوجہد کا تقاضا کر رہی ہے،عوام کب تک قر بانیاں دیتے رہیں گے ، عوام کب تک ڈر اور خوف کے مارے دبے رہیں گے ،عوام بے خوف ہو کر اپنے حق کیلئے جب تک آواز نہیں اُٹھائیں گے ،باہر نہیںنکلیں گے ،اس وقت تک ان کی زندگی میں کوئی تبد یلی آئے گی نہ ہی اقتدار کی بند بانٹ کا سلسلہ رکنے والا ہے ،عوام پربند کمروں کے فیصلے ایسے ہی زبر دستی مسلط کیے جاتے رہیں گے
،عوام سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی خاموشی سے قربانی کا بکرا بنے ہوئے ہیں تو اس مطلب ہر گز نہیں کہ عوام ڈرگئے ہیں ،دب گئے ہیں یا وقت بدلنے کے انتظار میں ہیں،عوام کے اندر ایک نفرت کا آلائو مسلسل پک رہا ہے ، اگرعوام کے ذہنوں میں پکتا نفرت کا آلائو اُبل پڑا تو پھر کسی کی سیاست بچے گی نہ ہی اقتدار میں آنے کے خواب کی کسی کو کوئی تعبیر مل پائے گی !