سارا بوجھ عوام پر ہی کیوں !
، انہوں نے عوام سے سارے وعدے اور دعوئے حصول اقتدار کیلئے کیے اور اقتدار ملنے کے بعد ا پنا مفادی ایجنڈا پورا کیا ہے ، یہ اپنے ایجنڈے کے تحت آج بھی عوام پر مسلسل بوجھ ڈالے جارہے ہیں ،یہ جن کے اشاروں پر آئے ہیں ،یہ ان کے ہی اشاروں پر عوام کے گلے پر چھری چلائے جارہے ہیں ،
یہ اپنے مفادات کیلئے کبھی پارلیمنٹ کو ڈھال بناتے ہیں تو کبھی آئی ایم ایف کی آڑ لیتے ہیں ،انہوں نے آئی ایم ایف کے نام پر پہلے گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا ،پھر درجنوں اشیا پر سیلز ٹیکس بڑھاکردیا اور اب بجلی کی قیمتوں میں بدرجہ مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے،جبکہ بڑی ہی ڈھٹائی سے رئیل اسٹیٹ اور زرعی شعبے کے جاگیردار وں ،وڈیر وں پر ٹیکس لگانے سے صاف انکار کردیا ہے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے
کہ ہماری پارلیمان کی بڑی تعداد جاگیر دار اور وڈیروں کی ہی ہے،یہ اشرافیہ ہی عوام کے نمائندے بن کر عوام کا ہی استحصال کررہے ہیں ،یہ سب ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے ہی مفادات کا خیال کرتے ہیں ، یہ عوام کے حقیقی نمائندے ہیں نہ ہی انہیں عوام کا کوئی خیال ہے ،یہ عوام سے ہمدردی کی باتیں محض دکھاوئے کیلئے ہی کرتے ہیں ،سینیٹر آصف کرمانی نے بھی دکھائوئے کا ہی رحم کھاتے ہوئے کہا ہے
کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ مڈل کلاس اور غریب عوام کی مشکلات بڑھائے گا، لیکن یہ مڈل کلاس اب کہاں رہی ہے، ملک میں اب صرف دو ہی طبقات رہ گئے ہیں،ایک اعلیٰ وحکمران طبقہ اور دوسراغریب پسا ہوا طبقہ، اس رحمدلی میں بھی ظالموں کو اپنے ہی نقصان کا خدشہ ہے ،اس لیے ہی کہا جارہا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ آئندہ الیکشن پر اثر انداز ہوسکتا ہے ،گویا انہیں عوامی مسائل کا کوئی درد نہیں،اپنے الیکشن پر اثر ہونے کا زیادہ خوف ہے۔یہ الیکشن میں ہار کا ہی خوف ہے کہ الیکشن میں جانے سے ہی گریزاں ہیں
، حکمران اتحاد نے اپنے دور اقتدار میں مہنگائی اور قر ضوں کے بوجھ کے علاوہ عوام کو کچھ بھی نہیں دیے پائے ہیں ،اتحادی اپنی کونسی کار کردگی پر عوام کی عدالت میں جاسکتے ہیں ،انہوں نے ایک طرف اقتدار کے مزے لوٹے تو دوسری جانب ساری مرعات سے بھی خوب استفادہ کرتے رہے ہیں،انہوں نے کبھی سینیٹ کے چیئرمین کی مراعات میں اضافہ تو کبھی ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں بڑھائی ہیں،
کبھی پروٹوکول پر خوب خرچہ کیا تو کبھی غیر ملکی دوروں پر سرکاری خزانہ لٹایا ہے ، آجکل ڈپٹی کمشنروں کے لیے اربوں روپے کی گاڑیاں خرید جا رہی ہیں ،یہ سب ایک دوسرے کے ساتھ مل کر قومی خزانہ لوٹ رہے ہیں اور انہیں کوئی پو چھنے والا ،کوئی روکنے والا نہیں ، کیو نکہ یہ سب ہی ایک دوسرے کے کا نے ہیں۔
یہ عوام کی بد نصیبی ہے کہ انہیں بار بار آزمائے کے رحم وکرم پر چھوڑا جارہا ہے ،جبکہ ان آزمائے ہوئے لوگوں کو عوام کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے ،یہ اپنے ہوس اقتدار میںعوام کو مہنگائی کے گہرے جہنم میں دھکیل کر عوام کے نام پر عوام کے ہی پیسے سے عیاشیاں کررہے ہیں اورعوام سے کہتے ہیں کہ سرکار کے پاس تو عوام کو رلیف دینے کیلئے پیسہ ہی نہیں ہے،
جبکہ سیلاب زدگان کے لیے آنے والی امداد ی رقم بھی سیلاب زدگان پر خرچ کر نے کے بجائے بحالی پروگرام کی نگرانی کرنے والے ڈپٹی کمشنروں کی قیمتی گاڑیوں کی خریدرای پر خرچ کی جارہی ہے، ایک طرف وزیروں ،مشیروں سے لے کر بیرو کریٹ تک سب ہی مرعات کے نام پر عیاشیاں کررہے ہیں تو دوسری جانب ملک قرضوں کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے ،یہ حکمران کشکول توڑنے کی باتیں کرتے ہیں
،ملک کیلئے امداد مانگتے ہوئے شرماتے ہیں ،لیکن اس ملک و عوام کیلئے اپنے بیرون ملک پڑے اربوڈالر واپس لانے کیلئے تیار نہیں ہیں ، یہ غریب عوام سے چھوٹے وعدے کر سکتے ہیں اور چھوٹے ٹسوے بہاسکتے ہیں،لیکن عوام کو قرض کی غلامی سے نجات دلائیں گے نہ ہی کشکول توڑ پائیں گے ،کیو نکہ یہ خود کسی کے غلام ہیں اور عوام کو بھی غلامی میںہی رکھنا چاہتے ہیں۔
اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے
تو حکمرانوں کی پالیسیوں سے اب عوام بیزار ہو چکے ہیں،عوام سمجھتے ہیں کہ ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے،عوام مہنگائی سے لے کر اضافی ٹیکسوں تک کا بوجھ اُٹھارہے ہیں اورحکمرانوں کی عیاشیاں ہی پوری نہیں ہو پا رہی ہیں،اگر حالات اسی دھارے پر بہتے رہے اور حکمرانوں نے اپنی روش نہ بدلی تو پھر وہ دن دور نہیںکہ جب قوم ایک انقلاب کی راہ تکتی نظر آئے گی ،حکمرانوں کوپھرمنہ چھپانے کی جگہ ملے گی نہ ہی راہ فرارمل پائے گا،اب بھی وقت ہے کہ حالات کو بہتری کی طرف لے جایا جائے
،عوام کو بنیادی سہولتیں مہیا کی جائیں ،کیونکہ عوام مزید استحصال کی متحمل ہو سکتے ہیں نہ ہی مزید دھوکے کھانے کے موڈ میں دکھائی دیتے ہیں ِ،اہل سیاست کو اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنی کوتاہیوں کو بھی سدھارنا ہوگا ، عوام کا بوجھ مل باٹنا ہو گا، ورنہ عوام تو سارے بوجھ تلے سسک ہی رہے ہیں،لیکن حکمران بھی بچ نہیں پائیں گے۔