اپنے ہاتھوں سے لگائی گرہیں !
اتحادی حکومت کی معاد ختم ہونے میں جب چند دن ہی باقی رہ گئے ہیںتونگراں حکومت کے بارے میں قیاس آرائیاں بڑھتی جاری ہیں،سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ نگراں حکومت کے وزیراعظم کے تقرر ہونے کے بعد ہی واضح ہوگا کہ انتخابات ہوں گے یا نگراں حکومت کی مدت بڑھادی جائے گی، نگراں حکومت کی مدت بڑھانے کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں کے سامنے صوبہ پنجاب اور صوبہ سرحد کی نگراں حکومتیں بغیر انتخاب کے ابھی تک قائم ہیں،
آئین کی خلاف ورزی کی نظیر بھی قائم ہے تو پھر نئی نگراں حکومت کے راستے میں کون روکاوٹ بن سکتا ہے ،جبکہ اُسے بااختیار بھی کیا جارہاہے۔اگر آئین کی رو سے دیکھا جائے تو نگر حکومت کا مطلب ایک ایسی حکومت ہے کہ جس کی غیر جانبدار حیثیت پر اعتماد کرتے ہوئے شفاف انتخابات کرائے جاسکتے ہیں ،اس لحاظ سے نگراں حکومتوں کے اختیارات ایک ریگولر حکومت سے واضح حد تک محدود ہوتے ہیں ،مگر موجودہ حکومت نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230میں تر میم کے ذریعے ساری حد بندی کو ہی مٹادیا ہے
،مذکورہ تر میم کے ذریعے جس طرح نگران وزیر اعظم کے اختیارات اضافہ کیا گیا اور جس طرح پا لیسی فیصلہ سازی کا اختیار سونپا گیا ہے ،اس سے تو صاف دکھائی دینے لگا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں ،بلکہ ساری دال ہی کالی ہے ۔اس انتخابات کی شفافیت کے نام پر کی گئی قانون سازی کی کوشش میں نگراں حکومت کے اختیارات میں اضافے نے ان غیر مصدقہ خبروں میں بھی وزن پیدا کردیا ہے
کہ طویل مدت کے لیے غیر منتخب ٹیکنوکریٹ یا نام نہاد ماہرین معیشت کی حکومت کا منصوبہ مقتدر حلقوں میں زیر غور ہے،گویا انتخابات کی شفافیت کے نام پر قانون سازی انتخابات سے فرار کے لیے ہی کی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ انتخابات سے فرار کے بارے میں طاقتور حلقوں اور حکمراں سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق ہو چکا ہے، لیکن مستقبل کے سیاسی منظرنامے پر اتفاق ہونا ابھی باقی ہے،اس لیے ہی سب کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں اور سب ہی ایک دوسرے کو پیچھے دھکیلتے ہوئے کوشاں ہیں کہ اپنی وفاداری کا یقین دلا کر اپنی باری لگوائی جائے،لیکن اس باریوں کے کھیل کے پیچھے ایک اور کھیل بھی کھیلا جارہا ہے ، اس بارے کچھ کہتے ہوئے سب ہی کی زباں لڑ کھڑانے لگتی ہے۔
ایک طرف نگران حکومت کے بارے خدشات پائے جارہے ہیں تو دوسری جانب انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بے یقینی بڑھتی جارہی ہے، حالانکہ اس بارے عالمی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف بھی ساری ضمانتیں لے چکا ہے اور حکومتی عہدیدار بھی یقین دھانیاں کراتے رہتے ہیں ، اس کے باوجود غیر منتخب نگراں حکومت کی طوالت کے خدشات کم نہیں ہو پارہے ہیں،یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے کہ پارلیمان کی بالادستی کے لیے سیاسی اتفاق رائے کے تقاضے بڑی سیاسی جماعتوں نے پورے ہی نہیں کیے ہیں،
اہل سیاست نے شخصی، خاندانی اور گروہی مفادات کا تحفظ تو کیا، لیکن نمائندہ حکومت کمزور سے کمزور ہوتی رہی ہے،حکمران قیادت نے ہر ایسے قانون کو غورو فکر، تبادلہ خیال اور مباحثے کے بغیر منظور کیا کہ جس کا حکم بالائی طاقتوں کی جانب سے آتا رہا ہے ،اس بار بھی پرانی رویت ہی دہرائی جارہی ہے۔
حکمران اتحاد طاقتور حلقوں کے اشاروں پر آئے تھے اور انہیں کے اشاروں پر جاتے جاتے نگراں حکومت با ختیار بنارہے ہیں ،اس کے خلاف کچھ سیاسی پارٹیوں کی مخالفت محض دکھاوئے کے علاوی کچھ بھی نہیں ہے،یہ سارے ہی اندر سے ملے ہوئے سیاسی سوداگر ہیں اور اپنے حصول مفاد کیلئے کبھی دوسروں کی خریداری اور کبھی خود کو بیچنے سے گریز نہیں کرتے ہیں، اگر اتحادی قیادت کی ضمیر فروشی کے باعث بااختیار نگراں حکومت قائم ہوتی ہے تو قوم رسمی سیاسی آزادی سے بھی محروم ہوجائے گی۔
حکمران اتحاد بظاہر اپنی مجبوریوںکا اظہار کرتے ہوئے بتانا چاہتے ہیں کہ نگراں حکومت کو بااختیار عالمی اداروں کا اعتراض دور نے کیلئے کیا جا رہا ہے، جبکہ حقائق برعکس ہیں ،حکومت اپنے عوام کی خواہش کی نسبت عالمی دبائو کو اہمیت دے کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہے،دوسرا نگران حکومت کی مدت و اختیار کے معاملے میں ترمیم سے جمہوری بالادستی کو نقصان پہنچنے کا بھی اندیشہ ہے اورملک کے حالات بھی یکساں ،ہموار نہیں رہے ہیں،
اس صورت حال میںکل کلاں نگران حکومت کے باطن سے اختیارات کا کوئی نیا منبع دریافت ہو گیا تو پھر تمام سیاسی جماعتوں کے لئے ماسوائے پچھتاوے کے کچھ بھی ہاتھ نہیںآسکے گا،اس لیے دانشمندی کا تقاضا ہے کہ اتحادی حکومت اپنے وقت پر رخصت لیتے ہوئے نگران حکومت کو آئندہ انتخابات کرانے کی ذمہ داری تک ہی محدورکھے ، بصورت دیگر اپنے ہی ہاتھوں سے لگائی گرہیں ،اپنے ہی دانتوں سے بھی کھولنا مشکل ہو جائیں گی!