آزمائیہ فار مولا چل پائے گا!
ملک سیاسی و معاشی بد حالی کا شکار اورمہنگائی نے عوام کی سانسیں تک کھنچ لی ہیں،لیکن وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ہم نے ملک کو درست راستے پر ڈال دیا ہے ،یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ اس بات پر کون یقین کرے گا ،اللہ تعالی نے ہر کسی کو عقل سے نواز ا ہے اور سب کو ہی دکھائی دیے رہا ہے کہ حکمران اتحاد نے اپنے دور اقتدار میں ماسوائے اپنے ہی حصول مفاد کے کچھ بھی نہیں کیا ہے ،عوام کل بھی اپنے درینہ مسائل کے ہاتھوں پر یشان حال رہے ،عوام آج بھی پر یشان حال بے موت مر رہے ہیں
،لیکن حکمرانوں کی تر جیحات میں عوام کے بجائے اقتدار رہاہے اور وہ دوبارہ حصول اقتدار کیلئے ہی کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔افسوس صد افسوس کہ دنیا بھر میں حکمران ہی اپنے عوام کیلئے رول ماڈل ہوتے ہیں ،لیکن یہاں پر صوت یکسر اُلٹ دکھائی دیتی ہے ،حکمران آج کے دور میں بھی پرانا ہی طرز عمل اختیار کیے ہو ئے ہیں ،جبکہ حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں ،ہمارے حکمرانوں کا طرز عمل بن چکا ہے کہ وہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں ،ان کے قول فعل کا تذاد ہی انہیں عوام سے دور کررہا ہے ،یہ اشرافیہ ہوتے ہوئے
بھی خود کو عوام کا خادم قرار دیتے ہیں ،یہ عوام کے کیسے خادم ہیں کہ اُن سے ہزاروں گناہ بہتر زندگی گزار رہے ہیں ،لیکن عوام کی زندگی بہتر بنانے کیلئے کچھ بھی نہیں کررہے ہیں ،اس قول فعل کے تذادکے ساتھ عوام ان کی باتوں پر کیسے یقین کر سکتے ہیں ۔ہر دور اقتدار میں حکمرانوں کے پاس ایک ہی بہانہ رہا ہے کہ ملک کے معاشی حا لات خراب ہیں ، یہ معاشی حالات خراب کر نے کے خود ہی ذمہ دار ہیں
، لیکن ایک دوسرے کومود الزام ٹھرا کر عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے ،ایک طرف معاشی بد حالی کا ڈھنڈ ورا پیٹا جارہاہے تو دوسری جانب حکمرانوں کی اپنی عیاشیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں ،حکومتی مرعات سے استفادہ کر نے کے ساتھ قومی خزانہ دنوں ہاتھوں سے اپنے سیاسی وذاتی مفادات پر لُٹارہے ہیں ،لیکن جب عوام کی بات آتی ہے تو خزانہ خالی ہو جاتا ہے،اگر حکمرانوں کا کردار ایسا ہو گا تو پھر عام آدمی غلط کا موں میں ملوث ہو کر پیسہ کمانے کی کوشش کیوں نہیں کرے گا؟
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حکمرانوں کی کرپشن کی کہانیاں زبان زد عام ہوں اور عوام سے ایمانداری کی توقع رکھی جائے ، عوام بھی تنگ آکر حکمرانوں کے ہی نقش قدم پر چلنے لگے ہیں ،عوام جان چکے ہیں کہ یہاں طاقت ور اور کمزور کیلئے الگ قوانین ہیں ، طاقتور کو کو ئی پو چھنے والا نہیں اور غریب بے جرم بھی پابند سلاسل ہے ،اس لیے جائز ونا جائز طاقتور بننے کی دوڑ لگی ہے ،اس دوڑ نے ہی معاشرہ تباہ کر کے رکھ دیا ہے ،لیکن حکمران معاشرے کی سدھار سے بے فکر ثابت کرنے میں کوشاں ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں ،اس دعوئے کے خلاف عوام جب مزحمت کرتے ہیں تو انہیں زور زبر دستی روکا جاتا ہے
،زبابندی کی جاتی ہے ،حکمرانوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ زبان بندی کے قوانین بھی زور شور سے متعارف کرنا شروع کر دیے ہیں ۔عوام کوآخر کب تک ایسے ہی دبایا جاتا رہے گا اور کب تک مجبور کیا جاتا رہے گا کہ حکمرانوں کی چھوٹی باتیں سن کر اُن کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں ،عوام کے صبر کا پیمانہ لبر یز ہو تا جارہا ہے ، عوام اہل سیاست کے روئیوں سے انتہائی مایوس ہوتے جارہے ہیں ،
عوام آج کی بدلتی صورتحال میں دیکھ رہے ہیں کہ اپنے مفاد کی خاطر کیسے بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں غیر جمہوری روش کی علمبر دار بن رہی ہیں ،ایسے میں خدشہ تو یہی ہے کہ جمہوریت اور آئین مذاق بن کر ہی رہ جائیں گے ،عوام نے پچھلے پندرہ ماہ میں ایسا سب کچھ ہی دیکھ لیا اور سہہ بھی لیا ہے ،جوکہ پہلے کبھی دیکھا نہ ہی بر داشت کیا تھا ،اس کے باوجود سارے بڑے فیصلے بند کمروں میں بڑے ہی اعتماد سے کیے جارہے ہیں ، لیکن اس کی کیا گارنٹی ہے کہ جو نظام پچھلے پندرہ ماہ میں چل نہ سکا ،
وہ آئندہ چل پائے گا اور مزید تباہی نہیں لائے گا ،آزمائے کو ہی بار بار آزمانے کا فارمولہ آزمایا جارہا ہے ،اس آزمائے فارمولے سے بہتری کی توقع خود کو دھوکہ دینے کے ہی مترادف ہے ، ملک میںجب تک صاف و شفاف انتخابات کے ذریعے عوام کی منتخب نئی قیادت سامنے نہیں لائی جائے گی ،اس وقت تک نظام میں بہتر لائی جاسکے گی نہ ہی ملک و عوام ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکیں گے !