مہنگائی کے مارے نیم پاگل عوام ! 56

عوام کی آنکھوں کا تارہ!

عوام کی آنکھوں کا تارہ!

ایک بلائے ناگہانی عوام کے سر سے ٹل گئی تو دوسری سر پر آن پڑی ہے، نگراں حکومت کی صورت میں ایک ایسادورِ ابتلا طلوع ہورہا ہے کہ اس کے بارے کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ یہ دور کتنا طول کھینچے گا،نگران حکومت کے بارے خدشات اور افواہیں بڑھتی ہی جارہی ہیں، ان حالات میں ضروری تھا کہ نگران وزیر اعظم پہلے دن ہی الیکشن کمیشن کو بریفنگ کے لیے طلب کرتے اور نئی مردم شماری و حلقہ بندیوں کے کام کو بروقت مکمل کرنے بارے حکمت عملی طے کرتے،لیکن اس کے برعکس سیکریٹری الیکشن کمیشن کا بیان سامنے آگیا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے عام انتخابات کا انعقاد تاخیر کا شکار ہوسکتا ہے،لیکن عوام انتخابات میں ایک دن کی تاخیر بھی برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔
عوام کی پہلے کبھی کسی نے سنی ہے نہ ہی آئندہ کوئی سنے کا ارادہ رکھتا ہے ،عوام ایک عر صے سے منصفانہ حق رائے دہی چاہتے ہیں اور عام انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں،لیکن کہیں کوئی سنوائی ہوتی دکھائی نہیں دیے رہی ہے ،اس ملک میں جو لوگ انتخابات کراسکتے ہیں، وہ خود اگلے چھ سے دس ماہ الیکشن نہیں چاہتے، ورنہ وہ جو کام چاہتے ہیں ، ایک سال کے بجائے چھ ماہ میں اور چھ ماہ کے بجائے تین ماہ میں مکمل ہوجاتا ہے، اور جو کام نہیں چاہتے ہیں، اسے اتفاق رائے کے حوالے کردیا جاتا ہے ، یہ اتفاق رائے ایسی چڑیا ہے کہ جسے تلاش کرنااتنا آسان نہیں ہے، کیونکہ ایک جانب مسئلے کو اتفاق رائے کے حوالے کر کے دوسری جانب اختلاف کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دیے دی جاتی ہے۔
اس ملک کا آئین بالکل واضح ہے کہ انتخابات کب اور کیسے ہو نے چاہئے ، لیکن آئین کے ساتھ کھیلنے والے ایسے اقدامات کررہے ہیں کہ جن کے سبب آئینی پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں،آئین کی تشریح کرنے والا ادارہ عدالت عظمیٰ ہے، لیکن آئین کی تشریح کے معاملے میں اتنی پیچیدگیاں آڑے آرہی ہیں اور عدلیہ کو بھی آئین کی بعض سادہ دفعات کی تشریح میں وقت لگ رہا ہے،یہ آئینی پیچیدگیاں ہیں کہ دبائو کا اثر ہے کہ فیصلوں میں تا خیر ہورہی ہے ، اب آئین کا حوالہ دے کر ایک بار پھر پیچیدگی کا اظہار کیا جارہاہے، یہ آئینی مسئلہ بھی ایک ہی خدشے کے تحت پیدا کیا گیا ہے کہ کہیں وہ قوت انتخابات میں کامیابی حاصل نہ کرلے کہ جس کی وجہ سے پی ڈی ایم کوسولہ ماہ اقتدار میں گھسیٹا گیا اور اب ایسے ہی آئینی تقاضے کی بنیاد پرنگران حکومت کوطول دینے کے کوشش کی جائے گی۔
یہ عام انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے والے جس سے خوفزدہ ہیں، وہ عوام یا سیاسی جماعتوں کی پیدا کردہ نہیں ،بلکہ طاقتور حلقوں کی پیدا کردہ ہے تو پھر اس غلطی کا خمیازہ ملک و عوام کیوں بھگتے؟ اس پر ظلم ہے کہ سارا کام آئین کے نام پر کیا جارہا ہے،کیا اس کے خلاف کوئی آواز اُٹھائے گا ،کیا کوئی الیکشن کمیشن اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ہمت کرے گا، لیکن یہاںمسئلہ تو وہی پرانا ہے کہ یہ سارے ہی آئینی درپر جانے کے بجائے اس دروازے پر جانا چاہتے ہیں کہ جہاں سے یہ غیر آئینی مسائل جنم لے رہے ہیں،انہیں آئینی مسائل سے نہیں ،حصول اقتدار سے غرض ہے اور اس کیلئے ایک دوسرے سے بڑھ کر سب کچھ کرنے کو نہ صرف تیار دکھائی دیتے ہیں،بلکہ اپنی سیاست اپنا سب کچھ ہی دائو پر بھی لگارہے ہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سیاست میں طاقتور حلقوں کی انتی زیادہ مداخلت رہی ہے کہ اس کے باعث سیاسی قائدین ان کی حمایت کے لئے ہی کوشاں نظر آتے ہیں ،اس کا اعتراف سولہ ماہ وزیر اعظم رہنے والے میاں شہباز شریف نے بھی خود کو ا ُن کی آنکھ کا تارہ سمجھتے ہوئے فخریہ انداز میںکیا ہے، اس اعلانیہ اظہار کے بعد جتنی بھی وضاحتیں کی جائیں، اس تعلق کی نفی نہیں کی جاسکتی ہے،یہ اہل سیاست کا غیر سیاسی قوتوں پر تکیہ کر نے کا ہی نتیجہ ہے کہ اس ملک کا سیاسی نظام ایک ایساحیرت کدہ بن کر رہ گیا ہے

کہ جس میں سیاسی جماعتیں ، انتخابات ، پارلیمنٹ اور آئین سب کچھ ہی موجود ہیں،لیکن جمہوری سیاسی اقدار ناپید اور سیاست دان بے توقیر ہو کر رہ گئے ہیں ،اہل سیاست جب تک دوسروں کے اشاروں پر آئین وقانون شکنی کرتے رہیں گے اور اغیار کادر دست چھوڑ کر عوام کی آنکھوں کا تارانہیں بنیں گے،اس وقت تک ایسے ہی ذلیل و رسوا ہوتے رہیں گے اور ملک وعوام کو بھی مشکل سے مشکل ترین حالات سے دوچار کرتے رہیں گے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں