44

کوئی باز ہی نہیں آرہا ہے!

کوئی باز ہی نہیں آرہا ہے!

ہمارے حکمران، بیورو کریسی اورمافیاز نے مل کر ملک کو ایسے حال میں پہنچا دیا ہے کہ ہر شخص مجبوری میں عمران، میاں اور مولانا کے نعرے بلند کر رہا ہے، مگراندر سے جانتا ہے کہ اس ملک کے ان نودولتیوں نے لوٹ کھسوٹ کر کے اپنی نسلوں کو سنوار سجا کر اربوں ڈالر ز کی ایمپائرز بیرون ممالک کھڑی کررکھی ہیں،انہیں کو ئی پو جھنے والا ہے نہ ہی ان پر کوئی ہاتھ ڈالنے والا ہے ، یہاں پر سب کی ہی باریاں لگی ہیں ،

ایک آزمایا جاتا ہے تو دوسر آزمایاآجاتا ہے،اس ملک کو عام عوام کے لئے جہنم بنا دیا گیا ہے،اس میں عوام زندہ رہیں تو کیا ،مر جائیںتو کیا، عوام کے پاس خامشی سے گزر جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے ۔اس ملک میں غریب کا کوئی پرسان حال نہیں، سیاسی اور غیر سیاسی خون آشام چمگادڑوں نے غریب عوام کو زندہ سسکتی لاشوں میں تبدیل کر دیا ہے، غریب بھو ک وافلاس سے خودکشیاں کر رہے ہیں ، مگراس ملک کے آقائوں پر کوئی اثر ہورہا ہے نہ ہی انہیں کوئی فرق پڑرہا ہے، کیونکہ ان کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں اور ان کی اولاد یں یورپ امریکہ میں عیاشی کی زندگیاں بسر کر رہی ہیں،

انہیں کیا پتہ کہ عوام کس طرح سسک سسک کر مر رہے ہیں، عوام بھوک و افلاس سے مررہے ہیں اورنگران وزیر ا عظم کہتے ہیں کہ حالات اتنے بھی خراب نہیں ہیں ،جتناکہ بڑھا چڑھا کر بیان کیے جارہے ہیں ،یہ سیاسی پوائنٹ سکورننگ ہے ،اگر میں نے الیکش لڑنا ہوتا تو میں بھی ایسے ہی پوائنٹ سکورننگ کرتا، نگران وزیراعظم درست کہتے ہیںکہ ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں، اس لیے ہی نگران حکومتیں عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش کرتی نظر نہیں آرہی ہیں۔نگران حکمران جوکچھ مرضی کہتے رہیں،

لیکن ملک انتہائی نازک وحساس حالات سے ہی گزر رہا ہے، ایک طرف ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بجلی و پٹرول کی قیمتوں نے عوام کا جینا محال کر رکھاہے تو دوسری جانب سیکورٹی کی کشیدہ صورت حال ایک چیلنج کی حیثیت سے سامنے کھڑی ہے،ملک میں کوئی منتخب حکومت نہیںکہ جس پر مخدوش حالات کی ذمے داری ڈالی جا سکے ،ماضی کی حکومتیں اپنا دامن چھڑا کر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھیرانے میںہی لگے ہوئے ہیں، پی ڈی ایم نے پورے سولہ ماہ صرف پی ٹی آئی پر تنقید کر کے اپنی خامیوں کو چھپائے رکھا ،جبکہ پی ٹی آئی نے بھی چور ڈاکو کی گردان میں ہی سارا وقت گزارا ہے ،

اس ملک میں نام نہاد منتخب حکومت آئے یا نگران سیٹ اپ ، عوام کسی کی اولین تر جیح رہے نہ ہی آئندہ تر جیحات میں شامل رہیں گے۔عوام پہلے ہی سڑکوں پر سراپہ احتجاج ہیں ،ایسے میں بجلی بلوں کی بجلیاں گرانے کے بعدپٹرول بم بھی ان کے کاندھوں پر گرا دیا گیا ہے ،اس کی ساری ذمے دار نگران حکومت ہے نہ ہی اس کی ذمے داری سے نگراں حکومت جان چھٹرا سکتی ہے،ایک طرف نگران حکومت اپنے مینڈیٹ کی بات کر تے ہیں تو دوسری جانب اپنی آئینی مدت سے تجاوز کرنے میںلگے ہوئے ہیں،

نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوںکوبنیاد بنا کرانتخابات کا التوا کیا جارہا ہے ،انتخابات کبھی فروری اور کبھی مزید آگے لے جانے کی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں ،جبکہ نگران وزیر اعظم کہتے ہیں کہ الیکشن تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام ہے، الیکشن تاریخ پر سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے گی، اس کا احترام کریں گے۔
انتخابات کے بروقت انعقاد پر الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی غیر سنجیدگی کسی سے پو شیدہ نہیں، نگران دور میں بھی سابق دور ہی کی پا لیسیاں جاری رہیں ،سیای حریفوں کے تحفظات ہیں کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،انتخابات سے راہ فرار اختیار کی جارہی ہے ، انتخابات سے راہ فرار ہر گز مسائل کا حل نہیں ، جب انتخابات کی جانب ہی جانا ہے تو پھر بلاوجہ تاخیر کیوں ؟ انتخابات میں تا خیر سے معاملات مزید خراب ہونے کا اند یشہ ہے ، گزشتہ سال میں معاشی نقصان کا تخمینہ کئی دہائیوں سے زیادہ ہے ،

اس کا اعلی سطح پرادراک ہو نے پر ہی الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کا دورانیہ کم کر کے تیس نومبرتک مکمل کر نے کا فیصلہ کر لیا ہے ،لیکن اگر عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے ساتھ ساری سیاسی جماعتوں کو لیول پلینگ فیلڈ مہیا نہیں کی گئی تو انتخابات کی شفافیت پر سوالات اُٹھیں گے ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے یکساں مواقع فراہم کرنا الیکشن کمیشن اور اداروں کی ہی بنیادی ذمہ داری ہے ، اس سے رو گردانی سے جہاں ملک مزہد مسائل کا شکار ہو سکتا ہے ،وہیں عوام کے صبر کا پیمانہ بھی لبر یز ہو سکتا ہے ،عوام کا پہلے ہی پارہ ہائی ہے

، لیکن اس صورتحال کو شائد کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا ہے کہ سلگتی چنگاری آگ بھہ پکڑ سکتی ہے ،یہ بات سب کو ہی یاد رکھنا ہوگی کہ بے لگام اور بے سمت ہجوم کے بارے میں تاریخ کے ہر دوراہے پر گواہی ملتی ہے کہ ان کا اگلا قدم خانہ جنگی اور سول نافرمانی کی طرف ہوا کرتا ہے ، یہ بااختیار جس عوامی ہجوم سے اپنی سیاست نکالنے کے متلاشی ہیں، انھیں ادھر سے کچھ ملنے والا نہیں،الٹا سب کچھ اُن کے ا پنے ہی گلے پڑ جائے گا،لیکن کوئی غلطیاں دہرانے سے باز ہی نہیں آرہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں