172

ہاں، مناظرے بازی حرام ہے

ہاں، مناظرے بازی حرام ہے

ہاں، مناظرے بازی حرام ہے

نقاش نائطی
۔ +966562677707

راقم الحروف کا مضمون بعنوان ”دیوبند مناظرے بازی کی لیپٹ میں“ شائع ہؤا تو اس پر أہل علم کی طرف سے مختلف قسم کے تبصرے اور سوالات آئے ان تمام میں سے ہم صرف ایک ہی سوال کا جواب دیں گے ، دراصل ہر سوال کا جواب دینے سے ”سوال وجواب“ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتاہے اس لئے سوالوں کے جواب دینے سے میں حتیٰ الامکان بچتا ہوں دوسرے ہر سوال کا جواب دینا بجائے خود بیوقوفی کی بھی بات ہے اس طرح آدمی اپنے کام سے بھٹک جاتا ہے اور سوالات میں الجھ جاتا ہے ۔ لیکن بعض سوالات ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا جوا دینا ضروری ہوتاہے خاص طور پر اس وقت جب کہ شرعی زبان میں کسی چیز کے حرام و حلال ہونے کے الفاط استمعال کیے گئے ہوں ۔
مسئلے کی نوعیت: راقم الحروف نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ”مناظرے بازی نا صرف مسلمانوں کے ساتھ حرام ہے بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی حرام ہے “ ۔ اسی جملے پر بعض أہل علم کو اعتراض ہے کہ مناظرے سے احقاق حق و ابطال باطل ہوتا ہے اسلئے یہ چیز ضروریات میں سے بھی ہے اور علماء اسلام کا فرض منصبی بھی ہے ۔ سب سے پہلے میں یہ واضح کردوں کہ میں نے جو حرام و حلال کا لفظ استعمال کیا ہے

وہ خالص فقہی اور قانونی پیرائے میں نہیں بلکہ اس کی کراہت و بیہودگی کو مؤکد کرنے کے لئے استعمال کیا ہے ناکہ شرعی حکم بتانے کے لیے ، یعنی اگر علماء اسلام ٹھوس دلائل و براہین اور سنجیدگی کے ساتھ اسلام و مسلمانوں کے نفع و ضرر کو سامنے رکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مناظرہ ایک ضروری چیز ہے ، تو ہم اپنے محترم علماء کرام کے سامنے سرتسلیم خم کردیں گے ۔
مناظرہ بازی سے کیا مراد ہے؟ مناظرہ بازی گفتگو کا وہ طریقہ ہے جس میں ایک عالم دین دوسرے عالم دین کو جھکانے قائل کرنے اور اپنی علمیت جھاڑنے کے لئے بحث کرتا ہے دلائل دیتاہے ، ناکہ خوف خدا کے تحت فریضہ دعوت کی تکمیل کے لیے یا مسلمانوں کے درمیان اصلاح‌ کے لیے ۔
قارئین کرام ! آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کس طرح کی گفتگو پسند کرتا ہے ؟ جب ہم اس سوال کے جواب کو قرآن کریم میں تلاش کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے تو آہستہ بولنے اور سنجیدہ گفتگو کرنے کا باقاعدہ حکم دیا ہے

واغضض من صوتک اور چیخنے چلانے کو گدھوں کی مکروہ آواز سے تشبیہ دی ہے ۔ ( سورہ لقمان ) قرآن مجید نے ایک جگہ حکم دیا ہے کہ أہل کتاب کے ساتھ بحث نہ کریں ہاں اچھے طریقے سے گفتگو کرسکتے ہیں وَلا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ احسن کی تفسیر تمام مفسرین نے بغیر کسی استثناء کے نرم گفتگو اور خیر خواہانہ لب و لہجہ سے کی ہے ، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد ( وَلا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ) قال: إن قالوا شرّا؛ فقولوا خيرا ۔ (العنکبوت ) مذکورہ آیتوں کے علاوہ بھی قرآن میں کم از کم پانچ آیتیں اور اسی معنی مفہوم میں آئی ہیں ۔دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر ”مناظرہ کی شرعی حیثیت“ کے بارے میں مندرجہ ذیل فتویٰ موجود ہے۔
(مناظرہ ) ”فی نفسہ تو فرض وواجب نہیں اگر کسی جگہ ایسے حالات پیش آجائیں کہ مناظرہ کرنا ناگزیر ہوجائے

اور دلائل و براہین کی روشنی میں تمام شرائط ملحوظ رکھ کر مناظرہ ہو تو اس کا درجہ موقعہ محل کو ملحوظ رکھ کر طے کیا جائے گا۔ “ حقیقت یہ ہے کہ علماء اسلام پر جو چیز فرض و واجب ہے وہ ہے بغیر کسی لالچ کے دعوت و تبلیغ اور وعظ ونصیحت ہے ‌۔
آج کل پاک بھارت بنگلہ دیش کے علماء کرام میں نہ جانے کہاں سے مناظرے بازی کا بدترین چلن عام ہوگیا اور اب تو ہر مسلک کی طرف سے باقاعدہ یہ بھی کہا جانے لگا کہ ہمارے اکابر نے فلاں مسلک کے اکابرین کو دھول چٹائی یا یہ کہ ہمارے اکابر کی زندگی کا مقصد ہی مفروضہ ”فرق باطلہ “ اور مفروضہ ”گمراہ شخصیات “ کی بیخ کنی اور گرفت تھی ، برصغیر میں اس بے بنیاد رجحان کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدارسِ اسلامیہ کی نئی پیداوار بہت تیزی سے مناظرے بازی کی طرف لپکنے لگی چھوٹی چھوٹی باتوں پر گمراہی و ضلالت کے فتوے صادر کردیتی ہے

اپنے پسندیدہ اکابر کو حرف آخر سمجھتی ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اکابر علماء کا رویہ اس رجحان کے بالکل برعکس ہے ۔علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب الغزالی میں امام غزالی کے متعلق لکھتے ہیں کہ
”امام صاحب 499 ہجری میں جب مقام خلیل میں پہنچے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مزار مبارک پر حاضر ہو کر تین باتوں کا عہد کیا
1۔ کسی بادشاہ کے دربار میں نہ جاؤں گا
2۔ کسی بادشاہ کا عطیہ نہ لوں گا
3۔ کسی سے مناظرہ اور مباحثہ نہ کروں گا چنانچہ مرتے دم تک ان باتوں کے پابند رہے ( ، الغزالی ، صفحہ 38 مصنف علامہ شبلی نعمانی )
مولانا قاسم نانوتوی کے زمانے میں علماء کرام نے اور خود حضرت نانوتوی نے عیسائیوں اور ہندوؤں کے مبلغین سے تو مناظرے ضرور کیے مگر مسلمانوں کے ساتھ کسی مناظرے کی روداد ہمیں نہیں ملتی ، ہاں سرسید احمد خان کا رد ضرور کیا ہے مگر عالمانہ خط و کتابت کے ساتھ اور وہ بھی سر سید کی ملی خدمات کو سراہتے ہوئے اور ان کے اخلاص کی داد دیتے ہوئے ۔ شیخ الہند مولانا محمودالحسن دیوبندی (وفات 30/ نومبر 1920 )نے مالٹا کی جیل کے اندر تنہائیوں میں طویل غور و فکر کے بعد زندگی کے جو اہم اسباق سیکھے تھے ان میں سے تین سبق یہ تھے کہ
1۔ اب عسکریت کے بجائے ڈائلاگ (گفتگو ، افہام وتفہیم) کرونگا ۔
2۔ جدید تعلیم یافتہ طبقے کو اسلام سے قریب کرنا ہے ۔
3۔ مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کرنا ہے ۔
مولانا حسین احمد مدنی مرحوم نے بھی زندگی بھر کوئی مناظرہ نہیں کیا بلکہ مشہور زمانہ بحث ”متحدہ قومیت“ کے بارے میں انتہائی ادب و احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے علامہ اقبال کے ساتھ خط و کتابت کی تھی

۔ مولانا مودودی کے ساتھ بھی خط و کتابت ہی کی گئی تھی اور وہ بھی بہت علمی پیرائے میں ۔ مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم (وفات 20/ جولائی 1943 ) اگر مناظرے بازی میں الجھتے تو ایک ہزار سے زائد کتابیں نہ لکھ پاتے اور اصلاح و تصوف کا وہ عظیم کارنامہ انجام نہ دے پاتے جو اللہ تعالیٰ کو ان سے لینا تھا ۔ خیال رہے کہ بعض محققین کے مطابق حضرت تھانوی نے 910کتابیں تصنیف فرمائی ( یہ اختلاف زیادہ اہم نہیں)
خود مولانا مودودی نے بھی اپنے آپ کو زندگی بھر مناظرے بازی سے بچا کر رکھا ہاں اپنے موقف کو ظاہر کرنے کے لیے اپنے قلم کو بھر پور استعمال کیا ، اگر مولانا مودودی مناظرے بازی میں الجھتے تو ہرگز ایسا طاقتور اسلامی لٹریچر تیار نہ کرپاتے جو بالآخر آگے چل کر برصغیر کے اندر مسلمانوں کی سب سے مضبوط منظم اور باشعور تنظیم کی بنیاد بنا ۔
حقیقت یہ ہے کہ مناظرے بازی ضد اور ہٹ دھرمی کی ایک قسم ہے جس سے مخالف کو ہرگز قائل نہیں کیا جاسکتا ، ماضی کے جن علماء کرام نے مناظرے کیے ان سے فائدہ تو نہیں ہؤا مگر ضد اور ہٹ دھرمی کی ذہنیت ایسی پیدا ہوئی کہ اصلاح و محاسبے کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوگئے امت مسلمہ کے اندر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سخت نقصان پہنچا ، بہت سے لوگ ضمیر کی پکار پر سچائی کو تسلیم کرلیتے ہیں مگر جب معاملہ ضد اور ہٹ دھرمی کی صورت اختیار کرلیتا ہے تو پھر معاملہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے

۔ ابھی حال ہی میں مولانا طاہر حسین گیاوی ( متوفی 10/ جولائی 2023 ) صاحب کا انتقال ہؤا جن کو بعض لوگ غلطی سے مناظر اسلام اور متکلم اسلام لکھ دیتے ہیں جب کہ وہ ہرگز نہ ”مناظر اسلام“ تھے اور نہ ہی متکلم اسلام ، بلکہ وہ مناظر دیوبند اور متکلم دیوبند تھے ، مولانا مرحوم کی وجہ سے کئی مقامات پر دیوبندی اور بریلوی حضرات دست و گریباں ہوئے اور اخبارات میں خبریں چھپی ۔ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے ؎

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں