93

مذہبی جنونیت کا جادو

مذہبی جنونیت کا جادو

تحریر: طاہر محمود آسی

قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان نے پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ “اپ ازاد ہیں اپنے گرجا گھروں، اپنے مندروں اور اپنی مساجد میں جانے کے لیے، اپ کا تعلق چاہے کسی بھی مذہب سے ہو ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے” ہمارے قومی پرچم میں سفید رنگ کا مطلب؟ چاند اور ستارے کا مطلب؟
ریاست پاکستان میں اعلی عہدوں پر فائز لوگ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کے نام پر دوسرے مذاہب کی تصدیق نہیں ہونے دیں گے، ریاست کی طاقت مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہے، قائد اعظم کے پاکستان میں ایسے واقعات کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اقلیتوں کو نقصان پہنچانے والوں کے ساتھ نہیں ہیں، اسلام میں ایسی حرکتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، سپریم کورٹ اقلیتوں کے حقوق کی امین ہے، پوپ جی ہمیں معاف کر دیں اور یہ کہ اقلیتوں کے نقصان کا ہر صورت ازالہ کریں گے۔۔۔۔۔۔

قارئین کرام! یہ وہ بیانات ہیں جو اقتدار کی کرسیوں پر مسند نشیں لوگ دے رہے ہیں ہر دفعہ یہی ہوتا ہے اور کچھ ایسے ہی بیانات سننے کو اور پڑھنے دیکھنے کو ملتے ہیں- جہالت اور جنونیت عدم برداشت اور نفرت کا جادو ہمارے پاکستان میں سر چڑھ کر بولتا ہے سب حربے تجربے اور کیے گئے اقدامات ٹھس ہو جاتے ہیں، اخر ایسا کب تک ہوگا؟ ایسے ماسٹر مائنڈ کہاں پر تشکیل پاتے ہیں جو ملکی امن و سلامتی کو تباہ و بربادی کی طرف دھکیلتے ہیں؟

اب تو نگران حکومتوں کا دور ہے، ان کی ڈیوٹی تو صرف ازادانہ اور منصفانہ انتخابات کروانا ہے مگر نگران لوگ تو آتے ہی مصیبتوں میں گھرگئے ہیں- ہمارا کلچر مذہبی جنونیت کے نرغے میں آکر تباہ و برباد ہوتا جا رہا ہے- اصلاحی پہلوؤں اور اقدامات کے لیے بہت گہری اور سخت کاوشوں کی اشد ضرورت ہے، علماء کے مثبت کردار کو کسی صورت بھی رد نہیں کیا جا سکتا-
17 اگست کو ضیاء الحق کی یاد کے ساتھ ساتھ اب مسیحیوں پر جڑانوالہ میں حملے کو بھی دہرایا جائے گا

جہاں پر سو کے قریب بائبل یا انجیل کے نسخے نظر اتش ہوئے ہیں، 47 ء کی پارٹیشن کے دلخراش مناظر پھر سے دیکھنے کو ملے ہیں، کئی فوٹیجز میں زندگی تڑپتی ہوئی نظر آئی ہے، پاکستان کسی طور پر ایسے واقعات کا متحمل نہیں ہے- معیشت کی زبوں حالی ایک ڈراونا منظر پیش کر رہی ہے، لوگ بجلی گیس کے بلوں سے بلبلا اٹھے ہیں اور ایسے میں یہ واقعہ ملکی امن اور سلامتی کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے- ہم کب بدلیں گے؟ ہمیں کب شعور ائے گا؟

خدا نے اج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا
کار ہی نہیں کرام اللہ رب کریم کا تو فیصلہ ہے کہ جب کسی خبر کو سنو تو تحقیق کر لیا کرو کیا کرو لیکن ہم کہاں تک تحقیق کرتے ہیں؟ کیا بعد میں پچھتانا ہمارا مقدر ہے یا کہ وطیرہ بن چکا ہے؟ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی مجبور ہو کر سرزمینِ پاکستان کو خیر باد کہہ چکے ہیں اور یہ تعداد بڑھ رہی ہے- اس میں مذہبی جنونیت کا رنگ بھی نمایاں ہے، جہالت عدم برداشت اور نفرت اس بکراؤ کو مزید تقویت بخش رہی ہے کیا مساجد میں ایسے اعلانات جن سے امن اور سلامتی پارہ پارہ ہو ہونے چاہییں؟

اگر نہیں تو۔ ۔۔۔ایسے کیوں ہو رہا ہے؟ مساجد گرجا گھروں اور دوسری سرکاری املاک کا نقصان ہمارا اپنا نقصان نہیں ہے؟ کیا یہ ملک ہمارا نہیں ہے ہم کیوں سوچ نہیں رہے ہیں؟قارئینِ کرام! یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ مذہب کی آڑ میں امن در بدر ہوا ہے، اس سے قبل بادامی باغ لاہور اور فیصل اباد کی تحصیل گوجرہ میں بھی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں، 1980ء کی دہائی میں توہین مذہب پر تین سال قید کی سزا رکھی گئی تھی 1982 میں جان بوجھ کر قران پاک کی بے حرمتی کی سزا موت رکھ دی گئی 1986 میں توہین رسالت پر موت یا عمر قید کی سزا رکھی گئی، یہ سب کچھ ہے تو پھر ایسا کیوں ہے؟
نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس کے مطابق 1987 سے اب تک 633 مسلمانوں، 494 قادیانیوں، 187 عیسائیوں اور 21 ہندوؤں کے خلاف ان قوانین کے تحت مقدمات درج کیے جا چکے ہیں تاہم ناقدین کی رائے ہے کہ یہ قوانین زیادہ تر اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہوئے ہیں، ذاتی لڑائیوں اور دشمنوں کے لیے بھی ان قوانین کا استعمال ہوا ہے سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز سی ار ایس ایس کے مطابق توہین مذہب میں اب تک 90 لوگ ماورائے عدالت بھی مارے جا چکے ہیں، اسلام اباد، خوشاب، پشاور، سیالکوٹ اور قصور کے واقعات ابھی تک ہمیں بھولے نہیں ہیں- اخر ایسا کیوں ہے، لگتا ہے ہماری ریاست مذہبی جنونیت کے سامنے بے بس ہے- دنیا عالم میں گرین پاسپورٹ کی بڑی بدنامی ہو چکی ہے اسلئے ایسے واقعات کو روکنے کے لیے سخت حکومتی اقدامات کی ضرورت ہے،

محلوں اور بستیوں کی سطح پر امن ممبرز روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ کریں اور فی الفور متعلقہ سیکیورٹی اداروں کو ایسے واقعات سے قبل آگاہ کر کے ماسٹر مائنڈز کو ڈھونڈنا ہوگا، پلاننگ کئے بغیر ایسے واقعات رونما نہیں ہو سکتے، تمام امن قائم کرنے والے اداروں کو اپنا اصل کردار ادا کرنا ہوگا- مذہبی جنونیت کہ جن کو درست طریقے سے بوتل میں بند کرنے سے پاکستان ایک حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بن سکتا ہے، پاکستان کا امیج درست طریقے سے دنیا کو دکھانے کے لیے ایسا کرنا نہایت ضروری ہے اس سے تعلیمی، مذہبی، سیاسی، معاشی اور اخلاقی ترقی کو فروغ ملے گا- دعا ہے کہ ملک سے نفرتیں ختم ہوں اور محبت جنم لیں، خدا کرے کہ ایسا ہی ہو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں