61

قوم کا سیاسی مستقبل آپسی اختلاف کی بھینٹ قربان

قوم کا سیاسی مستقبل آپسی اختلاف کی بھینٹ قربان

قوم کا سیاسی مستقبل آپسی اختلاف کی بھینٹ قربان

نقاش نائطی
۔ +966562677707

سیاست موقع پرستی کا دوسرا نام ہوا کرتی ہے ۔ سیاست میں کوئی کسی کا صدا کا ساتھی یا وفادار نہیں ہوا کرتا۔ہمیں اپنی قوم و ملت کے مفاد کو مقدم رکھنا ہے ۔ ہم نے 2013 انکے اسمبلی انتخاب ہار کے فوراً بعد، کمٹہ انتخابی گنتی سے لوٹتے ہوئے,جب جنتا دل سے منسلک ھندو پچھڑی ذاتی ذمہ دار ساتھیوں نے،اس وقت انکی شکست کے لئے, اس وقت کے ڈسٹرکٹ جنتا دل صدر کسی گؤڈا کو ذمہ دار ٹہرائے جانے کی بات انکے سامنے رکھی تھی, اسی وقت ہم نے عنایت اللہ سے برملا کہا تھا کہ فوری اقدام اٹھاتے ہوئے، انکے کچھ ہزار ووٹ انتخابی شکست کے لئے، ضلع صدر جنتا دل کے ذمہ دار ہونے کا بہانہ بنا، انکے سیاسی دوست و رہنما، سابق چیف منسٹر کمار سوامی سے، احتجاج کرتے ہوئے،

جنتا دل سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے، انکے کانگرئسی سیاسی سرپرست، اس وقت اور آج کے چیف منسٹر، سدا رامیہ سے ملاقات کرتے ہوئے، کانگرئس میں شمولیت اختیار کریں۔ اس وقت دس سال قبل اگر عزیزم عنایت اللہ نے ، ہمارے مشورے پر عمل کیا ہوتا تو یقیناً 2023 اسمبلی انتخاب میں عزیزم عنایت اللہ کانگرئس پارٹی ٹکٹ پر انتخاب لڑتے ہوئے، آج بھٹکل اسمبلی حلقہ کی نمائندگی ریاستی اسمبلی میں کررہے ہوتے
یہ اور بات ہے گھر کے بھیدی لنکا ڈھائے مثل مصداق،ہمارے اپنی برادری کے کچھ بااثر افراد، عزیزم عنایت اللہ کے کانگرئس میں شمولیت اختیار کرتے، انکے کامیاب سیاسی لیڈر بننے ہی کے خلاف پائے جائیں گے اور اگر عنایت اللہ سنجیدگی سے کانگرئس میں جانے کی کوشش بھی کریں تو وہ اپنے رسوخ کا استعمال کر، کانگرئس میں انکی شمولیت کے خلاف وہ کوشش کرتے پائے جائیں گے۔ یہ اس لئے کہ عام طبقہ سے کسی اپنے کے، اعلی سیاسی مقام حصول کرتے دیکھنے کے بجائے، کسی غیر مسلم دشمن ہی کو، وہ وقتی اقتدار پر دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ شاید اسی لئے 2013 اسمبلی انتخاب میں، بھٹکل مجلس اصلاح و تنظیم کے متفقہ فیصلہ کے باوجود، اپنے قومی ووٹوں کو مختلف سیاسی پارٹی امیدوارکے بیچ بٹواتے ہوئے،

قومی امیدوار جیت ہی نہئں سکتا یہ مشہور کر انکی شکست کی راہ آسان کی گئی تھیں۔ اور اب 2023 عام انتخاب عوامی اکثریتی آراء کو پس پشت رکھتے ہوئے، قومی امیدوار کے خلاف غیر امیدوار کے حق میں قومی ووٹ ڈلوانے، اجتماعی فیصلہ لیا گیا تھا۔ اگر سنجیدگی سے ارباب قوم سوچیں تو کرناٹک میں،بی جے پی کی شکست فاش ہوتے پس منظر میں، اگر قومی مسلم امیدوار کی شکست بھی ہوجاتی تو، چالیس پچاس ہزار ووٹوں سے اپنی شکست باوجود، قومی امیدوار آج سرخرو ہوچکا ہوتا اور اب کے جنتا دل کے بی جے پی کے ساتھ پارلیمنٹ انتخابی سمجھوتہ کرتی صورت میں، ریاستی اسمبلی انتخاب اپنی شکشت باوجود وہ کانگرئس پارٹی میں بڑے ہی طمطراق سے شامل ہوتے ہوئے،

مستقبل میں سیاسی طور سرخرو ہونے کے مواقع اپنے لئے پیدا کیا ہوتا۔ افسوس ہوتا ہے جب وقتی فوائد تناظر لئے گئے ارباب حل و عقل کے فیصلوں سے، اپنی قومی قیادت، دانستہ سازشانہ ختم کئے جانے والے ہمارے فیصلوں پر، ہم نظر ثانی کرنے تک کو تیار نہیں ہوتے ہیں الٹے ان کے خلاف عوامی اراء ہموار کرنے والے ہم جیسوں کو گھیرتے اوہمیں معاشرے میں بدنام کرنے کی کوشش کرتے پائے جاتے ہیں
ہر کسی کا ذاتی یا بطور سیاسی پارٹی ،وقت وقت سے بدلتے سیاسی منظر نامے میں، اپنی بقاء کی جدو جہد کے لئے، کوئی بھی اقدام لیا جانا فطری عمل ہوا کرتا ہے ہاں البتہ انکا ایک قدم انہیں سیاسی طور سرخرو بھی کرسکتا ہے تو وہیں انکی سیاسی موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ حالیہ اسمبلی انتخابی تین زاویاتی دوڑ میں ، مذہبی منافرت کے آگے راہول گاندھی والے محبت بھرے اخوت آمیز پیغام کو، جیت دلانے کے چکر میں، ‘حب علی’ کی بنسبت ‘بغض معاویہ’ کے چکر میں، جنتا دل کو جو کانگریس کے ہاتھوں پسپائی و ذلت آمیز شکست اٹھانی پڑی تھی اس تناظر میں جنتا دل کے ریاستی سطح کے، اس کے اصلی سیاسی دشمن کانگرئس کو پچھاڑنے، دوسرے بڑے اصلی دشمن بی جے پی سے اس کا ہاتھ ملانا بھی فطری عمل ہے

۔ ہاں البتہ اس پس منظر میں، جنتا دل میں پہلے سے شامل مسلم سیاست دانوں کا “ان ری ایکشن” کانگرئس کی طرف جھکاؤ یقینی محسوس کرتے ہوئے، اگر کانگرئس پارٹی ذمہ داروں کی طرف سے، انہیں اپنے میں سموئے جانے کا احساس بروقت دلایا جاتا تو، جنتا دل کے مسلم سیاست دانوں کو افتخار کے ساتھ کانگریس میں شامل ہوتے ہوئے، کرناٹک کی حد تک کانگریس پارٹی کو لازوال بنایا جاسکتا تھا۔لیکن اس سمت کانگرئسی لیڈران کی اپنی حالیہ جیت تفخر آمیز تساہلی نے، دوسری طرف قوم و ملت کے بااثر ذی فہم صاحب اختیار لوگوں کی اس طرف سعی پیہم کوتاہی نے، بالآخر مسلم قوم ہی کو اپنے درمیان، اچھے سیاسی لیڈران کی وقعت کھونے کو برداشت کرنا پڑرہا ہے

جنتا دل سیکیولر میں شامل بہت سارے اپنے اپنے علاقے کی نیابت کرتے انیک مسلم لیڈرشپ موقع محل دیکھتے ہوئے، جنتا دل سے اپنا دامن چھڑا کانگریس پارٹی میں اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ بھٹکل کے مشہور و معروف خادم قوم مشہور سیاسی لیڈر المحترم عنایت اللہ شاہ بندری کب موقع پرست جنتا دل کی وفاداری چھوڑ کانگرئس کے دامن میں پناہ لینگے؟ ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ یہ انکے لئے مشکل فیصلہ ہوگا، لیکن عوامی خدمات کے پیش نظر، بھٹکل عوامی مفاد کو دیکھتے ہوئے،انہیں یہ قدم اٹھانا پڑیگا۔

سیاست میں کوئی بھی صدا کا ساتھی یا وفادار نہیں ہوا کرتا، ایسی مشکل گھڑی میں قوم و ملت کے با اثر افراد حل وعقل، قومی سیاسی لیڈر سے ملاقات کر، ان سے صلاح مشورہ کرتے ہوئے، انکے پیچھے پوری قوم کے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہونے کا یقین انہیں دلاتے ہوئے، انہیں اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں مناسب فیصلہ لینے پر اکسائیں گے تو یقیناً قوم کو سیاسی لیڈرشپ منتخب کرنے میں بہت بڑی کامیابی مل سکے گی۔ جہاں خادم قوم عنایت اللہ کے چیف منسٹر سدی رامیہ سے بھی اچھے تعلقات ہیں 

وہیں پر قائد قوم خلیل الرحمن صاحب سے ڈیپیوٹی چیف منسٹر جی کے شیوکمار سے انتہائی اچھے تعلقات ہیں۔ اگر اپنے ورکروں کے ساتھ خادم قوم عنایت اللہ کو کانگریس میں شامل کرنے کی درخواست اگر قائد قوم خلیل الرحمن صاحب کریں گے تو ہمیں یقین ہے شیوکمار بھٹکل اسمبلی حلقہ کے پچاس ساٹھ ہزار مسلم ووٹروں کی طاقت کو دیکھتے ہوئے، اور ریاستی سطح سیاست میں عنایت اللہ کے قد کو دیکھتے ہوئے، انکار بھی نہیں کرپائیں گے،انشاءاللہ۔ بھٹکل مجلس اصلاح و تنظیم کیطرف سے غالباً 2012 کالیکٹ ویناڈ میں منعقد کی گئی

بھٹکلی احباب کی سب سے بڑی عالمی کانفرنس میں ، قومی سیاسی لیڈرشپ کو پروان چڑھائے جانے کے بالاتفاق فیصلے پر آخر پھر کب عمل در آمد کیا جائیگا؟ اس پر بھٹکل و بیرون بھٹکل و بیرون ھندقائم مختلف جماعتوں کے ذمہ دار اور بھٹکل مجلس اصلاح و تنظیم کے ذمہ داروں کو اس سمت سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور قومی قیادت کے لئے کوئی لاحیہ عمل طہ کرنا ہوگا ونا علینا الا البلاغ
👋🏻 کرناٹک میں بی جے پی جے ڈی ایس کو جھٹکا، دونوں کے 15 سے زیادہ لیڈر کانگریس میں شامل

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں