سیاسی انتشار میں مفاہمت کے امکانات ! 80

دہشت گردی پھربے قابو ہو نے لگی !

دہشت گردی پھربے قابو ہو نے لگی !

ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی سر اُٹھانے لگی ہے ،ایک بار پھردہشت گردی کا عفریت بے قابو ہوتا دکھائی دے رہا ہے،دہشت گردی کے تین افسوسناک واقعات ایک ہی دن رونما ہوئے کہ جس میں انتہائی قیمتی جانوں کا ضیاع ہو اہے، اس سے قبل بھی پاکستان کے دشمنوں نے بے گناہ شہریوں کے خون سے ہاتھ رنگے ہیں، ہمارا دشمن ملک میں خوف و ہراس پھیلانے کے مذموم مقاصد رکھتا ہے اور خود کش ہماری صفوں میں چھپے ہوئے ہیں جو موقع ملتے ہی خون کی ہولی کھیل کر پاکستان کے عوام کو مایوسی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں،ہمارا دشمن ہمارے ہی گھر میں بیٹھے زخم پہ زخم لگا رہا ہے

اور ہم زخم کھائے جارہے ہیں ، اس کے ساتھ ٓ اہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہو گا ، اس کو سبق سیکھانا ہو گا اور اس کے سہولت کاروں کو بھی نشان عبرت بننا ہو گا۔اس میں شک نہیں کہ ایک طرف دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں تودوسری جانب ہماری بہادر اور غیور سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور افسران اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر دشمن کے مذموم عزائم خاک میں بھی ملا رہے ہیں،مردان کے ضلع کاٹلانگ کے شہری علاقے میں کی جانے والی کارروائی میں ایک خطرناک دہشت گرد گروپ کا فیصل نامی انتہائی مطلوب سربراہ مارا گیا،ضلع کرم کے علاقے پارا چنار میں بھی دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلے میں ایک لانس نائک شہید ہوئے،

اس سے قبل بلوچستان کے علاقے ڑوب میںافغانستان سے دراندازی کی کوشش کرنے والے کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں سے فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے چار جوان شہید ہوئے ، اس کے باوجودمستونگ اور ہنگو کی خوں ریزی سمیت دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں تیزی ظاہر کرتی ہے کہ اس فتنے کے خلاف ایک بار پھر قومی اتفاق رائے سے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رَدّْالفساد جیسی ہمہ جہت کارروائی ناگزیر ہوگئی ہے۔
اس ملک کی ساری ہی قیادت بخوبی جانتے ہیں کہ اس دہشت گردی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اور اس فتنے کے سد باب کیلئے کیا کچھ کر نا ہے ،لیکن جو کچھ کر نا ہے ،وہ سنجید گی کے ساتھ کیا ہی نہیں جارہا ہے ، ایک طرف سکورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف سر گرم عمل ہیں تو دوسری جانب سیاسی قیادت نے ملک میں عدم استحکام کی فضا پیدا کررکھی ہے، اس کا تدارک کیے بغیر کیسے بے قابو دہشت گردی کے ناسورپر قابو پا جاسکتا ہے

، ملک کے اندر جب تک عدم استحکام کی فضاء قائم رہے گی ، اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو کاروائیوں کا موقع ملتار ہے گا ،دشمن موقع کی طاق میں بٹھا ہے اور ہم خود ہی ایسے مواقع فراہم کر رہے ہیں ، اس کے بعد ایک دوسرے سے گلہ کرتے ہیں ،ایک دوسرے کو مود الزام ٹہراتے ہیں ،جبکہ اس کے سب ہی ذمہ دار ہیں اور سب کو ہی اپنے گر یبانوں میں جھانکنا پڑے گا۔اگردیکھا جائے تو ملک کے بیشتر مسائل کی جڑ سیاسی عدم استحکام ہی رہا ہے اور اس کی سیاسی قائدین کی حد سے بڑھی انائیں ذمہ دار ہیں،ملک کا امان و امان دائو پر لگا ہے اور اہل سیاست دست گریباں ہیں ، یہ سب ملک کے مفاد میں سیاست قر بان کر نے کے دعوئے تو بہت کرتے ہیں ،لیکن عملی طور پراپنے ذاتی مفاد کیلئے سب کچھ ہی دائو پر لگا ئے جارہے ہیں ،

عوام دہشت گردی سے مرے یا بھوک سے کوئی احساس ہی نہیں کررہا ہے ، ایک طرف اقتدار کی بندر بانٹ چل رہی ہے تو دوسری جانب قومی لٹیروں کے استقبال کی تیاریاں ہورہی ہیں ، یہاں دہشت گردی کے واقعات اور سانحات پر دکھائوئے کے چند کلمات ادا کرنے کی رویت چل پڑی ہے ، ہر واقعہ اور سانحہ پر افسوس کے بیانات داغے جاتے ہیں اوراس کے بعد عام عوام کو مرنے کیلئے تن تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے ، یہ سکورٹی ادارے ہی ہیں ،جوکہ عوام کے زحموں پر نہ صرف مرہم رکھ رہے ہیں ،بلکہ اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کرکے ملک و عوام کی حفاظت بھی کررہے ہیں ۔یہ درست ہے کہ سیکورٹی ادارے دہشت گردی کے خلاف نہ صرف پر عزم ہیں ،بلکہ ملک کے دیگر بحرانوں کے سد باب کیلئے بھی کوشاں دکھائی دیتے ہیں ،

عوام ان پر بھر پور اعتبار بھی کرتے ہیں،لیکن سول محکموں کو بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کر نی چاہئے، سول انتظامیہ کو اپنے ہاں بھی وہی ڈسپلن قائم کرنا چاہئے ،جو کہ فوج میں قائم رکھا جاتا ہے،دہشت گردی کا سد باب فوج کی ہی نہیں ،سب کی ہی مشتر کہ ذمہ داری ہے ،اس کیلئے زبانی بیانات سے آگے بڑھتے ہوئے اب سِول قیادت اور اداروں کو عملی طور پر اپنی استعداد کو بڑھانا اور ثابت بھی کرنا ہو گا،

اگر یہ سب کچھ اب بھی نہ ہو سکا تو ہم من حیث القوم لاکھ دعوئوں کے باوجود دہشت گردی کے عفریت کو مکمل طور پر شکست نہیں دے پائیں گے، ہم سب کو بلا امتیاز و اختلاف آگے بڑھنا ہو گا، ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دینا ہوگا، ہم سب کو اپنے عمل سے نیت کا ثبوت دینا ہو گا،تبھی بے قابو دہشت گردی پر قابو پائیں گے ، ملک میںقیام امن لا پائیں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں