سیاسی انتشار میں مفاہمت کے امکانات ! 44

آزمائی قیادت سے مایوس عوام !

آزمائی قیادت سے مایوس عوام !

پا کستان جن مسائل سے دوچار ہے ،اس کا سب کو ہی علم ہے لیکن انہیں کوئی دور کرنے کو تیار ہے نہ ہی کسی پاس کوئی وا ضح حکمت عملی ہے ،یہاں ہر کوئی جھانسہ دینے میں ہی لگا ہے کہ اگر انہیں ایک بار پھر اقتدار دیا جائے تومعیشت بحال کر دیں گے، افلاس کا خاتمہ کر دیا جائے گا،معیار زندگی بلند ہو گا، کرپشن کا خاتمہ ہو گااور بھیک مانگنے کا سلسلہ بند کر دیا جائے گا، جبکہ یہ دعوئے کر نے والے سارے ہی آزمائے ہوئے ہیں،انہوں نے اپنے دور حکومت میں کوئی ایسا کام کیا نہ ہی کوئی وعدہ پوراکر پائے ہیں

، یہ ا آزمائے ایسے چلے کار توس ہیں کہ جن کے پلے کچھ بھی نہیں ، یہ عوام کو بہلانے اور بہکانے کے علاوہ کبھی کچھ دیے پائے نہ ہی آئندہ کچھ دیے پائیں گے ۔قوم آزما ئے کو بار ہا آزماچکی ،ایک بار پھر آزمانا نہیں چاہتی ہے ، قو م اہل سیاست سے مایوس ہو چکی ہے ،قوم جان چکی ہے کہ ملک کی بد حالی کے ذمہ دار کون لوگ ہیں اور یہ آزمائے لوگ ملک کے حالات بہتر کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں

اس وقت ایک طرف ملک کی معیشت ناتواں ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھر سر اٹھا نے لگی ہے،خیبر پختون خوا اور بلو چستان میں آئے روز بڑھتے دہشت گردی کے حملے صاف ظاہر کرتے ہیں کہ ٹی ٹی پی دو بارہ منظم ہو کر کا وائیاں کررہی ہے اور اس کی اندرون و بیرون ملک سے سہو لت کارہی ہو رہی ہے ، اس وقت دہشت گردی کا سد باب پہلی تر جیح ہو نی چاہئے، اس کے بغیر غیر ملکی سر مایہ کاری ہو گی نہ ہی ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لایا جاسکے گا ۔یہ درست ہے کہ کسی ملک کی معاشی سمت راتوں رات تبدیل ہو سکتی ہے نہ ہی فوری ابتر حالات کوبہتر حالات میں بدلا جاسکتا ہے

اس میں کچھ وقت ضرور لگتا ہے،اہلیت کے حامل لو گوں کا انتخاب کر نا پڑتا ہے، اپنی کو تاہیوں کا ازالہ بھی کرنا پڑتا ہے ،اس کیلئے راستہ بھلے مشکل اختیار کیا جائے، لیکن منزل پر پہنچنے کا عزم کرنا پڑتا ہے، اس وقت ایشو یہ نہیں کہ الیکشن کب ہوں گے، کون انتخابات میں حصہ لے گا اور کون باہر رہے گا، ایشو یہ ہے کہ پہلے ریاست کو بچایا جائے ، قیام امن لایا جائے ، جو کہ کسی ایک سیا سی جماعت یا آزمائے اتحاد کے بس کی بات نہیں ، لیکن آزمائے اہل سیاست ریاست بچانے کے بجائے اپنی سیاست بچانے کیلئے ناساز حالات کی آڑمیں اپنے مفادات حاصل کرنے میں ہی لگے ہوئے ہیں۔
اس وقت بدلتے حالات کا تقا ضا ہے

کہ بروقت عام انتخابات کا انعقاد کریا جائے اور ایک منتخب حکومت ہی اتفاق رائے سے نہ صرف ایک معاشی ایجنڈا طے کرے ،بلکہ عوام کی حمایت سے بڑے فیصلے بھی کرے ، لیکن اس کے برعکس نگران حکومت سے عوام مخالف فیصلے کروائے جارہے ہیں ،یہ ایک غیر منتخب نگران حکومت کا کام ہے نہ ہی ا س کا مینڈیٹ ہے ،نگران حکومت کا مینڈیٹ عام انتخابات کے بعد منتخب حکومت کی تشکیل تک ہے، مگر سبکدوش ہونے اتحادی حکومت نے دوسروں کے اشارے پر جاتے جاتے جو اضافی اختیار ات نگران حکومت کو دیئے ہیں،

وہ اس پر عملدرآمد کر رہی ہے اور بین الاقوامی اداروں اور دوست ممالک کی مدد سے معاشی بحران حل کرنے کیلئے سرگرم عمل دکھائی دیتی ہے، لیکن اپنا اصل کام بروقت صاف و شفاف انتخابات کر کے چلے جانے کو بھول رہی ہے۔اس ملک میں جو بھی اقتدار میں آتا ہے ،وہ اپنا اصل کام بھول کر دوسرے ہی کاموں میں لگ جاتے ہیں ، اس وقت بھی وہی کچھ ہورہا ہے ،ایک طرف آئندہ اقتدار کی بند بانٹ ہورہی ہے تو دوسری جانب اقتدارمیں بیٹھے لوگ آئین و قانون سے ماورا اقتدامات کرنے میں لگے ہوئے ہیں

، تاہم اس بندر بانٹ کے عث ایکسپوز ہونے والے حقائق نے سیاسی عمل میں عوام کی دلچسپی کو بالکل ہی ختم کر دیا ہے ، کیو نکہ عوام جان چکے ہیں کہ حصول اقتدار کی لڑائیوں میں عوام کے مسائل سے متعلق کوئی ایک بات بھی موجود نہیں ہے، اس کے پس پردہ عوام پر مزید مہنگائی، مزید غربت، مزید محرومی اور مزید اذیتیں ہی مسلط کی جا رہی ہیں،عوام کی زندگی میں تبدیلی آزمائی قیادت کے واپس آنے سے آئے گی

نہ ہی نگران حکومت کے فیصلوں سے حالات بد لنے والے ہیں، عوام کے مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے، اس نظام کے اندررہتے ہوئے کسی صورت کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے ، اگر واقعی کوئی تبدیلی لانا چاہتاہے تو اس کیلئے نظام زر کو اکھاڑ پھینکنا ہو گا ،لیکن ہوس اقتدار میں مدہوش اہل سیاست سے نظام کی تبدیلی کی کوئی توقع نہیں ، آزمائی قیادت سے مایوس عوام کہیں اور ہی دیکھ رہے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں