سیاسی انتشار میں مفاہمت کے امکانات ! 41

روشن مستقبل کا راستہ !

روشن مستقبل کا راستہ !

ملک میں ایک طرف سیاسی بے یقینی بڑھتی جارہی ہے تو دوسری جانب مہنگائی کے سونامی نے عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے، آئے روزبجلی،گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے عام عوام کا ہاتھ اتنا تنگ کر دیا ہے کہ منہ تک بھی پہنچ نہیں پارہا ہے، یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ملک میں کوئی ایسا ادارہ دکھائی ہی نہیں دیے رہا ہے، جو کہ مہنگائی کنٹرول کرے اور مفت بجلی،گیس اور پٹرول استعمال کرنے والوں پر پابندی لگائے، کیو نکہ اس ظلم کو روک والے ہی اس میں شامل ہیں،

عوام کے خون پر پروان چڑھنے والوں کا ایک ہی علاج ہے کہ ان پر پابندی لگائی جائے، انہیں ایوان اقتدار اور اعلی عہدوں پر آنے سے روکا جائے ، اس ملک میں جب تک مفاد پرست لو گوں پر ایوانِ اقتدار سے لے کر اعلی عہدوں تک کے دروازے بند نہیں کیے جا ئیں گے، عوام ایسے ہی بدحال رہیں گے۔
عوام کا کبھی کسی کو خیال آیا ہے نہ ہی عوام کبھی کسی کی تر جیحات میں شامل رہے ہیں ، یہاں ہر کوئی عوام کے نام پر اقتدار میں آتا ہے اور اقتدار میں آکر عوام مخالف ہی فیصلے کر نے لگتا ہے ، گزشتہ پی ڈی ایم حکومت جو کچھ کرتی رہی ہے ،نگران حکومت بھی وہی کچھ کررہی ہے ،نگران وزیر اعظم مہنگائی اور بیروزگاری پر قابو پانے کے ٹھوس اقدامات کر سکتے ہیں لیکن وہ جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں،بجلی ،گیس ،پٹرول کے نرخوں میں مسلسل اضافے کی منظوریاں ہی دیئے جارہے ہیں،

جبکہ ڈالر نیچے لانے اور بجلی ،گیس کی قیمتیں کم کر نے کے لیے جو چھاپے مارے جارہے ہیں ،اس کے مثبت اثرات عام لوگوں تک پہنچ ہی نہیں پارہے ہیں ، نگران حکومت جو کام فوری طور پر کر رہی ہے، وہ صرف مہنگائی بڑھانے کے اقدامات ہیں،سمری آتی ہے ،منظوری ہوتی ہے اور نافذ ہو جاتی ہے، لیکن عوامی فلاح کے کام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ منصوبہ بنا رہے ہیں ، اس پر جلد ہی کام کا آغاز کیا جائے گا۔
نگران حکومت کو جو آئینی فریضہ سونپا گیاہے،اس جانب نگران توجہ دے رہے ہیں نہ ہی عوام کے مسائل کے تدارک کیلئے کوئی اقدامات کیے جارہے ہیں ، ایک طرف غیر سیاسی حلقوں پر تنقید کی جاتی ہے کہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کریں ،جبکہ دوسری جانب غیر سیاسی حلقے ہی معاملات سدھارتے دکھائی دیتے ہیں ، ڈالر کی اونچی اُڑان کو نیچے لانے سے لے کر سمگلنگ کی روک تھام تک سب کچھ سیکورٹی ادرے کررہے ہیں

تو نگران کس مرض کی دوا ہیں اور کس لیے لائے گئے ہیں، نگران حکومت اور ان کے نگرانوں کے سارے کام اور ساری توجہ کسی اور جانب ہی لگی ہوئی ہے ورنہ عوام کو رلیف دینے کے کام کوئی اتنے لمبے چوڑے نہیںہیں کہ اُن کیلئے دوسروں کو آنا پڑے اور آکر سارے معاملات درست کرتے رہیں اور نگران ٖاجلاسوں میں بیٹھے ٖفوٹو سیشن ہی کراتے رہیں۔عوام بخوبی جانتے ہیں کہ نگران کو لانے والے کون ہیں اور وہ کس کے دیئے ایجنڈپر کو نسا کام کررہے ہیں، تاہم اس سارے کھیل تماشے سے عوام بے زار ہو چکے ہیں ،

عوام کو کسی غیر سیاسی ایجنڈے سے کوئی غرض ہے نہ ہی کسی کے آنے جانے سے کوئی واسطہ ہے ، عوام اپنے مسائل کا تدارک چاہتے ہیں ، عوام اپنی زندگی میں تبدیلی چاہتے ہیں ، عوام باریاں لینے والوں سے چھٹکارہ چاہتے ہیں ، عوام اپنے حق رائے دہی سے اپنی قیادت کا انتخاب کر ناچاہتے ہیں، لیکن عوام کو ہی حق رائے دہی دینے سے محروم رکھا جارہا ہے ، عوام کے سامنے مختلف تو جہات پیش کرکے بے وقوف بنایا جارہا ہے، ایک بار پھر وہی پرانا ناکام سکر پٹ دہرایا جارہا ہے ،

اس سکرپٹ پر ہی سارے ہی فنکار اپنی اداکاری کے جو ہر دکھانے میں لگے ہیں ،لیکن اس کے نتائج پہلے اچھے نکلے نہ ہی آئندہ کچھ اچھے نکلتے دکھائی دیے رہے ہیں ۔اس وقت ملک کس ددراہے سے گزر رہا ہے ،اس کی کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ،یہاں ہر کوئی سیاست نہیں ،ریاست بچانے کا دعوئیدارہے ، لیکن اپنی سیاست بچانے کیلئے سب کچھ ہی دائو پر لگا رہا ہے ،ایک اقتدار کیلئے ڈیل کررہا ہے تو دوسرا ڈھیل مانگ رہا ہے ،جبکہ عوام بد تر معاشی حالات، بیروزگاری اور مہنگائی سے تنگ آکر بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں ،

گزشتہ دو سال میں 18 لاکھ سے زائد افراد روزگار کی تلاش میں پاکستان چھوڑچکے ہیں، خراب معاشی حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اب بھکاری بھی بیرون ملک جانے کو ترجیح دے رہے ہیں، جو کہ عمرے کے ویزے پر سعودی عرب یا عراق جاکر بھکاری کا پیشہ اختیار کررہے ہیں اور پا کستان کیلئے شر مندگی کا باعث بن رہے ہیں۔عوام کے بھکاری بننے سے حکمرانوں کو کیا فرق پڑتا ہے ،وہ خود بھی دنیا بھر میں کشول تھامے مانگتے پھررہے ہیں ، اس ملک کے بھکاری حکمرانوں نے عوام کو بھی بھکاری بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ، لیکن یہ سب کچھ زیادہ دیر تک چلنے والا نہیں،

پاکستان آج ایسے دوراہے پر کھڑا ہے کہ جہاں اسے فیصلہ کرنا ہے کہ اسے اشرافیہ کی گرفت اور مخصوص حلقوں کے مفادات کے تحت کئے گئے فیصلوں اور پا لیسیوںپر کاربند رہتے ہوئے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی چالس فیصد آبادی کے ساتھ پسماندہ رہنا ہے یا ان فیصلوں پر نظرثانی کرکے تابناک مستقبل کیلئے راستہ تبدیل کرنا ہے،اگرتعمیری سوچ کے ارادے تعمیری سفرکے ساتھ چلنے لگیں گے توہی روشن مستقبل کے راستے خود بخود کھلتے چلے جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں