105

8 اکتوبر یوم استقامت

8 اکتوبر یوم استقامت

خواجہ عمران الحق

زندگی رکتی نہیں ،تھمتی نہیں آگے بڑھ جاتی ہے مگر بعض حادثات ایسا روگ لگا دیتے ہیں جو اس سفر کو ایک کسک بنا دیتے ہیں اور 08اکتوبر 2005کا دن بھی ایک ایسا ہی دن تھا جب آزاد جموں وکشمیر اور پاکستان کی تاریخ میں قیامت خیز زلزلہ نے چند لمحوں میں ہی لاکھوں انسانی زندگیوں کو لقمہ اجل بنا دیا۔ہنستے بستے گھر بار اجڑ گئے۔دیو ہیکل عمارتیں زمین بوس ہوگئیں۔ اربوں کی جائیدادیں اورکارباری مراکز زمین بوس ہوگئے۔یہ منظر تاریخ میں کسی قیامت سے کم نہیں تھا،بے بسی ایسی کہ دم گھٹتا تھا

،ایسے عالم میں مسلح افواج پاکستان سمیت پاکستان کے تمام صوبوں سے عوام،این جی اوز اور لوگوں کی بڑی تعداد نے مظفرآباد،باغ،راولاکوٹ اوردیگر علاقوں میں پہنچ کر ریلیف اور امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا جس کے باعث ہزاروں کے حساب سے لوگوں کو ملبہ تلے سے نکال کر بچا لیا گیا۔08اکتوبر 2005کے زلزلہ میں انسانیت کے جذبہ ہمدردی کی زندہ مثال دیکھنے میں آئی۔اخوت بھائی چارہ اور انسانی ہمدردی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا جو بھی آزادکشمیر آیا اس نے دل کھول کر مدد بھی کی اور امدادی کاموں میں حصہ بھی لیا۔

ہمارے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے لوگ کراچی سے خیبر تک آزادکشمیر پہنچ کر دنیا کو اس ہولناک تباہی کے مناظر دکھانے لگے جس کے باعث بین الاقوامی دنیا سے بھی متاثرین زلزلہ کے لیے امدادی سامان آنا شروع ہوگیا اور ریلیف اور تعمیر نو کے کاموں میں تیزی آئی۔سابق صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے اس دوران آزادکشمیر حکومت کو بھرپور معاونت فراہم کی ۔سابق وزیراعظم شوکت عزیز ،سابق صدر آصف علی زرداری ،سابق وزراء اعظم یوسف رضا گیلانی ،راجہ پرویز اشرف ،میاں محمد نواز شریف نے بھی آزاد حکومت کومعاونت فراہم کی ۔آزادجموں و کشمیر کے سابق وزراء اعظم سردار سکندر حیات خان ،

سردار عتیق احمد خان ،چوہدری عبدالمجید اور راجہ فاروق حیدر خان نے اپنے اپنے ادوار میں تعمیر نو کے کاموں میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ۔ حکومت پاکستان اور بین الاقوامی برادری خاص کر سعودی عرب ،چین ،امریکہ ،ترکی ،متحدہ عرب امارات ،برطانیہ ،جرمنی فرانس اور دیگر ممالک کی مدد اور تعاون سے ریلیف اور تعمیر نو کے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا ۔موجودہ حکومت بھی وزیراعظم چوہدری انوارالحق کی سربراہی میں باقی ترقیاتی منصوبوں جن میں سکولوں کی تعمیر شامل ہے کو مکمل کرنے کیلیے پُرعزم ہے

۔ 08اکتوبر 2005 کی یاد ہرسال شہداء زلزلہ کے طور پر منائی جاتی ہےاور اس عہد کی تجدید کی جاتی ہے کہ زلزلہ میں ہمارے جو پیارے ہم سے بچھڑ گئے تھے انکے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کی جائے اور بچھڑنے والے خاندانوں سے بھی بھرپور ہمدردی کا اظہار کیا جائے۔
اس دن کو یوم استقامت کے طور پر منانے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ زلزلہ قدرت کی طرف سے ایک آزمائش تھا اگر چہ اس آزمائش کا انسان مقابلہ تو نہیں کرسکتا تاہم اس طرح کی آفات سماوی کے دوران جب سب کچھ تباہ و برباد ہوجائے

تو بچ جانے والے افراد کو کیسے مضبوط اعصاب قائم رکھتے ہوئے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے گزشتہ 18 سال سے ہم اس دن کو اس عزم کے ساتھ مناتے ہیں کہ اس دن کی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے امدادی کارروائیوں اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیا ر کی جاسکتی ہے۔08اکتوبر 2005کے ہولناک زلزلہ کے بعد آزادکشمیر میں اسٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جسکے نیچے ایمرجنسی سروسز فراہم کرنے والے اداروں کو نہ صر ف فعال کیا گیا

بلکہ انھیں جدید آلات سے بھی لیس کیا گیا اور ایمرجنسی سروسز کے دوران دیگر اداروں کی باہمی اشتراک کے لیے بھی حکمت عملی تیار کی گئی۔SDMAنے آزادکشمیر بھر جبکہ DDMAنے اپنے اپنے اضلاع میں ریلیف اور امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی حکمت عملی تیار کی اس طرح DDMAکے زیر اہتمام زلزلوں،قدرتی آفات،سیلاب،آگ،آندھی طوفان اور دیگر حادثات کے دوران امدادی کاموں کے لیے ایمرجنسی سروسز کے جملہ اداروں کو ہائی الرٹ رکھا ہوا ہے۔پورے آزادکشمیر میں ہر سال شہداء زلزلہ کی برسی کے موقع پر دعائیہ تقریبات منعقد ہوتی ہیں جن میں ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ اور عوام الناس بھرپور شرکت کرتے ہیں

ان تقریبات میں عوام الناس کو قدرتی آفات کے آنے کے بعد انسانی جانوں کو بچانے کے لیے ایمرجنسی سروسز کے اداروں کی طرف سے حکمت عملی کا عملی نمونہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ کیسے انسانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔قومی سطح پر 8 اکتوبرکو آفات سے نمٹنے کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، یہ دن ان قیمتی جانوں کی یاد دلاتا ہےجو 2005 کے قیامت خیز زلزلے میں جان کی بازی ہار گئے تھے-اس کے علاوہ یہ زلزلہ کئی مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ بھی بنا جس نے کئی گاؤں اور قصبے مٹی کے نیچے دفن کردیئے۔ ہمیں آج بھی وہ تکلیف دہ مناظر یاد ہیں۔ شاید ہم انہیں کبھی نہ بھول سکیں گے

اس دن کو منانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ قدرتی آفات، ان کے مختلف زمروں، ان کے نتائج اور قدرتی آفات سے بچنے کے طریقوں کے بارے میں آگاہی پھیلانے کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ اس دن اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں قدرتی آفات کے بارے میں معلومات پھیلانے کے لیے مختلف سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں۔یہ دن اہم ہے کیونکہ یہ تمام لوگوں کو خود انحصار بنانے پر زور دیتا ہے۔ وہ کسی بھی قسم کی آفت کا شکار ہونے سے پہلے اس آفت کو دور کرنے پر بھی زور دیتا ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک اور کمیونٹیز کیلئے زلزلے ایک بڑا خطرہ ہیں جس سے پیدا ہونے والی تباہی کے امکانات سے نمٹنے کے لئے عام لوگوں کی تیاری وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سیلاب، زلزلے،

وبائی امراض پھوٹنے سمیت دیگر ایسے ہی واقعات کے بارے میں عوام کو مختلف عوامل سے آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ کسی بھی آفت کی صورت میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے خو اور دوسروں کو بچانے میں معاون ثابت ہو سکیں۔ ماہری۔ یہ دن منانے کا مقصد قدرتی آفات سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ ہے۔۔پوری دنیا میں موسمی تغیر اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے قدرتی آفات وقوع پزیر ہو رہے ہیں۔ 8 اکتوبر سانحے کے بعد قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے وفاقی اور صوبائی سطع پر موثر حکمت عملی کے تحت اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا جو کہ آفات سے نمٹنے کی انتظامی استطاعت رکھتے ہیں. ایس ڈی ایم اے آزاد کشمیر سطح پر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ایک فعال اور منصوبہ ساز ادارہ ہے

جو آفات سے نمٹنے، آفات کے خطرات میں کمی لانے اور تیاری سے متعلق منصوبہ سازی کرتا ہے۔ اور اپنی منصوبہ سازی کے تحت اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تمام تر امدادی کاروائیوں میں عورتوں،بزرگوں،بچوں اور معذورافراد اور انفرسٹرکچر کو نقصان سے بچاؤ کا خاص خیال رکھا جائے، قدرتی آفات سے درپیش خطرات کو بروقت آگاہی اور بہتر حکمت عملی سے کم کرنا ریاستی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔حکومتی اقدامات کے نتیجے میں آفات کے نقصانات کو کم کرنے سے معاشی اور سماجی ستحکام لایا جا سکے گا

اورممکنہ آفات سے متاثرہ علاقوں میں تمام ترقیاتی منصوبوں میں آفات کے خطرات کو ملحوظ نظر رکھ کر حکمت عملی ترتیب دینے میں مدد گار ثابت ہونگے۔آفات کے خطرات کو کم کرنے کے لیے شعور و گاہی اور تعلیم کو فروغ دینا ہو گا۔ عوام کو ہر قسم کی آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کرنا ایس ڈی ایم اے کی اولین ترجیح ہے۔آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت آفات سے نمٹنے اور صلاحتی دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کر رہی ہے اوریہ حکومت کے پائیدار ترقی کے ایجنڈہ میں شامل ہے

۔ماضی میں قدرتی آفات سے نمٹنے کا نظام موجود نہ تھا لہذا آفا ت کی وجہ سے ہمیں بھاری مالی اور جانی نقصان اٹھاناپڑا لیکن اب اللہ کے فضل سے آٖفات سے نمٹنے کا ایک مکمل نظام موجود ہے ۔قدرتی آفات دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں آتی ہیں اور یہ زندگی کے وجود سے ہی بنی نوع انسان کے لیے ایک عام سی بات ہے۔ قدرتی آفات میں سمندری طوفان، زلزلے، طوفان، برفانی تودے اور سونامی شامل ہیں -ہم اس وقت تک حادثات سے مکمل طور پر بچ نہیں سکتے جب تک ہم فطرت کی گود میں رہ رہے ہیں اور اس سلسلے میں ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ چونکہ ہمیں قدرتی ماحول میں رہنے کی ضرورت ہے

ہمیں حادثات کے بارے میں تھوڑا زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے چاہے وہ انسان کے بنائے ہوئے ہوں یا قدرتی۔ ایک مناسب ڈیزاسٹر مینجمنٹ بنی نوع انسان کے ذریعہ کئے گئے اہم ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ اگر ہم کامیابی کے ساتھ ایک مثالی سائنسی انتظامی منصوبہ تیار کر لیں تو یہ ممکن ہے کہ ہم اس تباہی کے اثرات کو کم کر سکیں گے جس سے بنی نوع انسان کو درپیش ہے اور اسی
وجہ سے یہ اس وقت پریشان ہے۔

موثر منصوبہ بندی ہمیشہ کسی بھی چیز کا بہترین ردعمل ہوتا ہے جو ہمارے قابو میں نہیں ہے اور ہمیں قدرتی اور انسانی ساختہ آفات کی صورت میں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔تو یہ ممکن ہے کہ ہم اس تباہی کے اثرات کو کم کر سکیں گے جس سے بنی نوع انسان کو درپیش ہے اور اسی وجہ سے یہ اس وقت پریشان ہے۔موثر منصوبہ بندی ہمیشہ کسی بھی چیز کا بہترین ردعمل ہوتا ہے جو ہمارے قابو میں نہیں ہے اور ہمیں قدرتی اور انسانی ساختہ آفات کی صورت میں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے

تن کے زنداں میں جو روح تھی، مرگئی
شدتِ غم سے پتھر لرزنے لگے
ارضِ جاں پر بپا ہو گیا زلزلہ، کچھ نہ باقی بچا!
آنسوؤں کے خدا!
قلبِ انساں میں بھی ہو بپازلزلہ!

…………………………………….

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں