جمہورکی آواز 48

مفت کی نوکری

مفت کی نوکری

جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی

فیصل آباد کے ایک محلے میں عمران بھائی کی ایک چھوٹی سی کریانہ کی دکان تھی ، لیکن اس کے پاس ہروقت گاہکوںکارش رہتا جس میں اس کی خوش مزاجی کا بھی بڑا ہاتھ تھا ویسے بھی ایک کہاوت ہے جسے مسکرانا نہیں آتا اسے دکان بنانے کا کشٹ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ سڑیل،خشک مزاج اور جھگڑالوشخص ایک کامیاب بزنس مین نہیں بن سکتا بہرحال عمران بھائی کے پاس اکثر اوقات پیسے کھلے (change ) لینے کے لئے کوئی نا کوئی آتا رہتا تھا، اور وہ کسی کو بھی انکار نہیں کرتا تھا

یہی وجہ تھی لوگ شوق سے اس کے پاس جایاکرتے تھے ۔ ایک دن نہ جانے کیاہوا اس کا مزاج برہم ہوگیا اس کے پاس ایک بوڑھا آدمی (change ) لینے گیا تو اس نے عمران بھائی سے کہل یہ ایک پھٹا پرانا نوٹ ہے تبدیل کردو وہ جیسے پھٹ پڑا تم لوگوںنے کیا تماشا بنا رکھا ہے اب میں دکانداری کروں یا تم لوگوں کو سارا دن پیسوں کی چینج دیتا رہوں؟؟؟ میں تو تنگ آ گیا ہوں مفت کی اس نوکری سے ۔۔ جسے دیکھو منہ اٹھائے آجاتاہے change لینے جیسے میں نے پورے شہرکا ٹھیکہ لے رکھا ہو اتفاق سے ایک عالم ِ دین بھی وہیں موجود تھے

اس نے بڑی نرمی سے عمران بھائی کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ کبھی سوچا ہے کہ ایک چھوٹی سی دکان ہونے کے باوجود آپ کے پاس پیسوں کی اتنی فراوانی کیسے رہتی ہے؟ نہیں کبھی نہیں سوچاہوگا۔
عمران بھائی خاموش ہو گئے جیسے ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ ہو وہ خالی خالی نظروں سے عالم ِ دین کو تکنے لگے پھر بولے میں تنگ آگیاہوں لوگوںکو چھٹا دیتے دیتے حضرت صاحب اس اکسرسائز میں میری دکانداری کا بڑا حرج ہوتاہے … عالم ِ دین نے کہا عمران یہ تمہاری خام خیالی ہے جو میں جانتاہوں تم نہیں جانتے ایک کام کریں، دو تین دن کیلئے لوگوں کو چینج دینا بند کر دیں میں 3دن بعد جمعہ پڑھ کر تمہارے پاس آئوں گا پھر بات کرتے ہیں وعدہ کرو میری اگلی ملاقات تک تم کسی کو بھی change نہیں دوگے۔
عمران بھائی نے تفہیمی انداز میں سرہلادیا اور وہ حضرت صاحب مسکراتے ہوئے چلے گئے عمران بھائی کے کانوںمیں ان کا یہ جملہ گونجنے لگاجو میں جانتاہوں تم نہیں جانتے ۔۔ اس نے سر جھٹک کر کہا ہونہہ change میں نے دیناہے یا نہیں دینا اس میں کون سا فلسفہ پوشیدہ ہے یا کون سی منطق ہے خواہ مخواہ میرا دماغ خراب کردیا اب عمران بھائی کوتجسس ہوا یہ حضرت صاحب کیا جانتے ہیں جہ میں نہیں جانتا اس نے سختی سے آنے والوںکو change دینا بندکردیا آنے والے حیران پریشان تھے کہ عمران بھائی کو کیاہوگیا ہے

ان کا مزاج چڑچڑا ہوتا چلاچارہاتھا ایک دو افرادسے تلخ کلامی ہوتے ہوتے رہ گئی آخرکار جمعتہ المبارک کو حضرت صاحب آن وارد ہوئے اس وقت بھی عمران بھائی کسی سے بحث کررہے تھے انہوںنے مسکراتے ہوئے پوچھا عمران بھائی کیا حال ہے ؟اس نے اداس لہجے میں کہاحضرت صاحب کیاحال سنائوں؟ جیسے دکان سے برکت اٹھ گئی ہے، میں بہت زیادہ پریشان ہوں، سمجھ نہیں آتا، جب دیکھو پیسے ختم ہو جاتے ہیں جبکہ دکانداری بھی ویسے ہی چل رہی ہے دل سے اطمینان اور سکون رخصت ہوگیاہے
حضرت صاحب نے کہا عمران بھائی کبھی غورکیا ہے چند پہلے تک بھی آپ اتنی چھوٹی سی دکان اور پھر بھی آپ سارا دن لوگوں کو چینج دیتے رہتے ہی تھے بوگوںکا تانتا بندھارہتا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہے یہ برکت اس لئے تھی آپ لوگوں کیلئے آسانی پیدا کرتے تھے اور وہ رب رحمن و رحیم آپ کے مال میں برکت پیدا کرتا تاکہ آپ اسی طرح لوگوں کے کام آتے رہیں اب آپ نے لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنا بند کی تو اس نے اپنی برکت اور کرم بند کردیا یہ سلسلہ دوبارہ شروع کریں پھر دیکھیں کتنا کرم ہوتاہے

بعض اوقات ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ زندگی میں ہمیں اکثر چیزیں دوسروں کے مقدر اور وسیلے سے مل رہی ہوتی ہیں لیکن ہمیں اس کااحساس نہیں ہوتا یہ سن کر عمران بھائی کا چہرہ کھل اٹھا جیسے ان کے سینے سے منوں بوجھ ہٹ گیاہو ایک سیدھی سی بات جسے وہ اپنے لئے مصیبت اور دکانداری کیلئے حرج قراردے رہے تھے وہی ان کیلئے سکون اور برکت کا سبب تھا ۔ اب عمران بھائی کا کہنا ہے

پھر میرے پاس پیسے ختم نہیں ہوتے اور میں اب کسی کو بھی چینج change دینے سے انکار نہیں کرتا۔دوسروںکیلئے آسانیاں بانٹنا ایک ایسی نیکی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں اس طرح چھوٹی چھوٹی نیکیاں ایک دوسرے کے دلوںمیں احساس پیداکرتی ہیں وہ لوگ بڑی اہمیت کے حامل ہیں یہ منتخب افراد ہوتے ہیں جن کو اللہ تبارک تعالیٰ آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا کرتاہے اس لئے کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ ہم بھی آسانیاں بانٹیں اس پر کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا توپھردیرکس بات کی ہے

یہ تو نسخہ ـ کیمیاء ہے جسے سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے آج معاشرے میںافراتفری اور نفسا نفسی کا ماحول ہے یہ اس حوالے سے بھی ضروری ہوگیا کہ ہمارا شمار آسانیاں بانٹنے والوںمیں ہوجائے تو منزل آسان ہوجائے گی، یہ نفرتوں،کدورتوں اور باہمی رنجشوںکا خاتمہ ہونے کی نوید ہے اسے آپ عمران بھائی کی طرح مفت کی نوکری نہ سمجھیں خیرو برکت کاسبب ہے آزمائش شرط ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں